Poetry

صفائی کے دوران گروسری لسٹ کا ایک مڑا تڑا ٹکڑا ہاتھ لگا ،ایک نا مکمل بارش کی نظم تھی،کراچی کے چٹخاروں اور کیمپس کے ذکر سے اندازہ ہے کہ غالباً کینیڈا کے نئے نئے دِنوں کی تحریر ہے بہرحال بارش کی نامکمل نظم مکمل کر لی گئی، کچھ نئے پرانے ذائقوں اور بارش کے امتزاج کے ساتھ مزیدار سی!
آپ کو کیا کیا یاد آیا مجھے بھی بتائیے گا
گرمیوں کی بارش ہے!
نظم : قرۃ العین صبا
گرمیوں کی بارش ہے
دس طرح کی یادیں ہیں
پیاز کے پکوڑے ہیں
آلو کے پراٹھے ہیں!
کیمپس کے کیفے تلے
چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں
چائے کی چسکیوں کے ساتھ
دوستوں کی باتیں ہیں
یاد کی ایک جنبشِ ہے
گرمیوں کی بارش ہے
وہ جو ایک بیکری ہے
کریم آباد کے پچھواڑے
اسکے رول خیالوں میں
اور وہ اسٹک بوٹی
ساتھ میں سموسوں کی
کیسی ننھی خواہش ہے
گرمیوں کی بارش ہے
ٹھنڈئی ٹھنڈئی بوندوں میں
آئسکریم وہ “کے بیس” کی
برگروں کے موسم تھے
کیسے بھولے ہم تم تھے
ظالم بڑی یہ دانش ہے
گرمیوں کی بارش ہے
کیسے وہ پھوار کے ساتھ
کھڑکی کے شیشوں پہ
کسی یاد کا چلے آنا
بارش کے گیتوں پہ
خواب کے دریچے سے
زیرِ لب گنگنانا
یادوں سے منقش ہے
گرمیوں کی بارش ہے
قرۃ العین صبا

(Visited 4 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *