راستہ کتنا ہی صاف کیوں نہ کر دو، پیچھے سے کتنی ہی آوازیں کیوں نہ لگاؤ یہ چھوٹے صاحب سیدھے راستے کو چھوڑ کے جب تک برف کے پہاڑ میں پاؤں دھنساتے ہوئے گاڑی تک نہ جائیں انکا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ سردی کے موٹے موٹے کپڑوں میں پیک برف پہ ایسے پاؤں مارتے ہیں کہ لگتا ہے کوئی خلائی مخلوق چاند پہ ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ کل میں نے گاڑی میں بیٹھ کے سرزش کی کہ تم کیوں صبح صبح برف میں کود جاتے ہو تو مسکراتے ہوئے فرمایا”کیونکہ مجھے اچھا لگتا ہے”.
میاں صاحب نے ٹکڑا لگایا کہ جب تم چھوٹی تھیں تو تم نے بھی بارش کے جمع ہوئے پانی میں چھپاکے مارے ہونگے۔ ہاں بھئی بلکل مارے تھے اور سچی بات ہے کہ بچپن میں بارش کے پانی میں کھیلنے کے فینٹسی الگ ہی ہوتی تھی، اسی جمع شدہ پانی میں کاغذ کی کشتیاں بھی چلاتے تھے اور جگہ جگہ ٹھہرے پانی میں چھپ چھپ پاؤں مارتے ہوئے چلنے کا مزا ہی نرالا تھا لیکن ایک تو ہم گرم ملک میں رہتے تھے دوسرا ہمارے بڑوں کو بس اسی بات کا خدشہ ہوتا تھا کہ کپڑے گندے ہو جائیں گے اور یہاں اتنی ٹھنڈ میں اگر جوتوں میں برف چلی جائے تو موزے بھی گیلے اور سارا دن پیر بھی گیلے، اتنے چھوٹے بچے کی حس اسکو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیتی کہ خیال سے موزے بدل لئے جائیں پھر وہی کووڈ کے دن اور نزلہ زکام کا ڈر۔
ابھی گاڑی میں ہماری یہ بات چیت جاری ہی تھی کہ سامنے والی گاڑی سے ایک بچہ اُترا اور درمیان کے فٹ پاتھ کی برف پہ اپنے بیگ سمیت الٹا کودا اور کسی فوجی مشق کی طرح برف پہ لیٹ کے چاروں ہاتھ پاؤں سے رینگ رینگ کے فٹ پاتھ کراس کیا اور مزے سے کپڑے جھاڑ کے اسکول کے دروازے کی طرف چل دیا۔
ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کے ہنس پڑے ۔
قرۃ العین صبا
Bachpan
(Visited 3 times, 1 visits today)