اپنی یہ تحریر مجھے خود بھی بہت پسند ہے کیونکہ اس سے بچپن کی خوشبو آتی ہے ۔ جب پچھلے سال ریڈنگ ویک کے سلسلے میں اسے پوسٹ کیا تو سب نے بہت پسند کیا اور کمنٹس کی صورت اپنا حصہ ڈالا۔اپنے نئے پڑھنے والوں کیلئے اپنے بھائی کے کمنٹ کے ساتھ دوبارہ پوسٹ کر رہی ہوں جس نے تحریر اور یادوں کو مزید خوبصورت بنا دیا ہے۔ پڑھ کے اپنی رائے دینا نہ بھولیں ۔
نانی اماں اور انکی جلدی کتابوں کے ٹرنک!
ان دنوں ویک اینڈ جمعرات کو ہوا کرتا تھا اور اپنے دور کے بہت سے بچوں کی طرح ہمارا رخ بھی اپنی نانی اماں کے گھر کی طرف ہوتا جنکو سب “اماں” کہاں کرتے تھے.جب حالات ہر طرف سازگار ہوتے اور بڑوں اور رشتے داریوں میں روٹھنے منانے کا کوئی سلسلہ نہ ہوتا تو چھٹی کے دن سب کی دوڑ اماں کے گھر کی طرف لگتی، اماں خاصی شوقین تھیں .بڑھاپے کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آدمی کی بہت ساری عادتیں اور چیزیں فکس ہو جاتی ہیں اور کوئی انکو چھیڑے یا اسمیں دخل اندازی کرے تو بہت تکلیف ہوتی ہے . انکی بھی کچھ چیزیں ایسی ہی تھیں جیسے لاؤنج کے کونے پہ انکے پاندان کی چھوٹی سی میز کے ساتھ لگی سفید بنی ہوئی کرسی.لاؤنج میں بہت سی ایسی کرسیاں تھیں لیکن اماں کی کرسی پہ صرف اماں ہی بیٹھتی تھیں جہاں سے راہداری کے پار سیدھ میں گھر کا دروازہ سامنے نظر آتا . بلکل ایسے ہی انکا سفید نواڑ کا پلنگ جسکو کبھی کبھی کسی کے ساتھ ملکے وہ اپنے ہاتھوں سے کسا کرتی تھیں . اسکے سرہانے ایک اورپلنگ اور کمرے میں بڑا سا تخت بچھا رہتا ،انکے کمرے میں ماموں نے اے سی لگوا دیا تھا اسلئے بھری دوپہروں میں چھوٹی بڑی ساری خلقت جمع ہوجاتی،دروازوں کے نیچے پرانی چادریں ٹھونس دی جاتیں ، تخت, پلنگ سب بھر جاتے اور بچی کچی جگہ پہ بستر لگ جاتے لیکن اماں کا پلنگ بس انہی کے لئے مختص رہتا جس پہ جب وہ کروٹ لے کے منہ پہ اخبار ڈھک کے قیلولہ کرتیں تو سب تھوڑی دیر کے لئے باہر کھسک لیتے .
نانا گزر چکے تھے وہ کے ڈی اے میں اچھے عہدے پہ تھے جسکی بدولت یہ سرکاری فلیٹ الاٹ ہوا تھا ،گھر پرانی طرز کا تھا لیکن باؤنڈری بہت بڑی تھی آگے پیچھے بڑی ساری کھیلنے کی جگہ اور بڑی بڑی چھتیں ،پیچھے کی طرف گیراج اور سرونٹ کواٹر بھی بنے ہوے تھے اور ان سے پرے بادام اور بیری کا گھنا پیڑ جسکے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس پہ اثر ہے،گھر کے آسیب زدہ ہونے کی بھی بہت ساری کہانیاں تھیں لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ سب مل کے پارٹی کرتے ،کھاتے پیتے,کھیلتے کودتے اور پھر بھوت پریت کی باتیں کر کر کے ہم بچوں کا خون خشک کرتے جن سے ہم خواہ مخواں ہی سہمے سہمے رہتے ،اندھیرے میں باورچی خانے میں یا دروازہ کھولنے جانا پڑ جاتا تو ساری کہانیاں تازہ ہوجاتیں.ان کہانیوں نے ایک عرصہ خوف زدہ رکھا .
اماں خاندان کی بڑی تھیں اور پکانے اور کھلانے کی شوقین . چھٹی کے دن ہمارے علاوہ بھی رشتےداروں کا آنا جانا لگا رہتا اسلئے سب دوستوں کے جمع ہونے کا بھی انتظار ہوتا .جب پاے اور حلیم کی بڑی بڑی دعوتیں ہوتیں تو گویا عید ہی ہو جاتی.سردیوں میں باورچی خانہ گاجر اور سوہن حلوے کی خوشبو سے مہکا کرتا۔ انکے پکاے ہوے کھانے اور سوہن حلوہ خاندان بھر میں مشہور تھا .ہم بچے یہ سب سیکھنے کی عمر میں نہیں تھے ہمیں تو اماں کی دوسری چیزیں اچھی لگا کرتیں جیسے انکا جہازی سائز کا لوڈو جس پہ وہ پلاسٹک کا کوور چڑھا کے رکھتیں اور جسکو انکی سپر وژن کے بغیر کسی بچے کو چھونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی.کبھی کبھی تاش اور کیرم کی بازی بھی لگتی لیکن انکا ایک شوق سب پہ بھاری تھا اور وہ تھے انکے رسالے اور کتابیں۔بہت پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن اردو پڑھ لیتیں تھیں ہماری امی انکا احسان مانتی ہیں کہ انہونے دادا یعنی اپنے سسر سے بغاوت کر کے اپنی بیٹیوں کو کالج بھیجا تھا .
جمعے کی صبح صبح جب ہلکی پھلکی کھٹ پٹ سے آنکھ کھلتی تو وہ اپنے بڑے بڑے بٹنوں والے ہلکے سرمئی کوٹ پہ سفید دوپٹہ پہن کے ٹوکری لئے سودا لینے جا رہی ہوتیں.جب تک اماں واپس آتیں ہماری آنکھیں پوری کھل چکی ہوتیں اکثر اخبار والے سے بچوں کا کوئی رسالہ خرید لاتیں “گڑیا ذرا دیکھنا یہ نیا رسالہ آیا ہے ” (یہ متروک ہوا نک نیم ان سے یا بھائی صاحب سے ہی سننے کو ملتا) وہ “خزانہ ” کا پہلا شمارہ تھا. انھیں کتابوں کی جلدیں بنانی بھی آتی تھیں جسکی لئی بھی وہ خود پکاتیں.گتے اور کپڑے کو جوڑ کے پھولدار پیپر چڑھا کے بہت صفائی سے تمام کتابوں اور رسالوں کی جلدیں بنا دی جاتیں اور پھر ایک سفید کاغذ کا ٹائٹل چپکا کے کتاب کا نام لکھ دیا جاتا یوں یہ خزانہ ایک لمبے عرصے کے لئے محفوظ ہو جاتا اور کئی ہاتھوں سے گزرنے کے بعد بھی کتابیں اپنی اصل شکل میں موجود رہتں .امی ابّا نے بھائیوں کو جتنی کتابیں دلوائی تھیں وہ سارا کا سارا جلد شدہ ورثہ کچھ عرصے بعد ہمارے ہاتھ آیا ،داستان امیر حمزہ ،عمرو یار ،ٹارزن سیریز ، محمود ،فاروق فرزانہ اور انسپکٹر جمشید اور فیروز سنز کی ڈھیروں ناولیں جن کے صفحے زرد ہو چکے تھے لیکن یاد نہیں پڑتا کسی کا سرورق غائب ہو یا صفحہ پھٹا ہو.
پہلی “پہیلی ” سے تعارف بھی اماں کی توسط سے ہوا وہ جمعے کے ایڈیشن میں بچوں کا صفحہ ہاتھ میں لئے پوچھ رہی تھیں “گڑیا یہ پہیلی بتاؤ “
چھوٹی سی ڈبیہ ٹپ ٹپ کرے
چلتا مسافر گر گر پڑے
“یہ پہیلی کیا ہوتی ہے ؟” ہم نے پلٹ کے سوال کیا .پھر اماں نے پہیلیاں سمجھائیں اور ہم اب تک بوجھنے کی کوشش کر رہے ہیں .
تھوڑے عرصے بعد اماں کی کتابوں کا ٹرنک بھی ہمارے لئے کھل گیا،اے آر خاتون کا “شمع” ،”افشاں” ،زبیدہ خاتون کا “عروسہ” (ان دنوں عروسہ ڈرامہ بھی نیا نیا آیا تھا) اور دوسرے بہت سے ناول.ہم خوش خوش وہ کتابیں گھر لاے اور اتراتے ہوے سامنے رکھیں کہ سب کو احساس دلا سکیں کہ اب ہم بڑے ہوگئے ہیں.قسمت خراب کہ بھائی صاحب کی نظر پڑ گئی اور خوب جھاڑ پڑی کے آئندہ یہ کتابیں نظر نہ آیں ،پھر واقعی وہ کتابیں نظر نہیں آییں کیونکے وہ سب ہم نے چھپا کے پڑھ لیں ،اس سے یہ سیکھا کہ ٹوین اور ٹین ایج میں تجسس زوروں پر ہوتا ہے اور اصول توڑنے میں بہت مزہ آتا ہے اسکا ایک حل ہے کھلی بات چیت اور دوسرا حل ہے متبادل فراہم کرنا .بھائی صاحب نے ہمیں “سو بڑے لوگ “،”سو بڑے آدمی” “پیارے نبی کی پیاری کہانیاں ” اور “ایجادوں کی کہانیاں ” قسم کی بہت سی کتابیں لا کر متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی لیکن جو چسکا لگ چکا تھا اسنے کئی سالوں افسانوں،ناولوں اور ڈائجسٹوں میں الجھاے رکھا لیکن یہی ڈائجسٹ پھر ادب اور شاعری سے پہلا تعارف بنے اور ایک سلسلہ چل نکلا ساتھ ساتھ ڈی ایچ اے کالج اور پھر سر سید یونیورسٹی جیسی درسگاہوں اور اساتذہ نے شوق اور ذوق کی صحت مند نشو نما کی جس نے ایک مقام پہ جا کے قلم تھما دیا . آجکل اپنے اطراف جب میں زبان کے فرق یا کسی اور وجہ سے بچوں کا اپنے دادا دادی اور نانا نانیوں سے منقطع رابطہ اور صفر بات چیت دیکھتی ہوں تو دل چاہتا ہے کہ والدین کو احساس دلایا جا سکے کہ انکے بچے تربیت کی ایک کتنی بڑی تجربہ کار درسگاہ سے محروم ہیں.الله تعالیٰ نانی اماں اور ہمارے بزرگوں کے درجات بلند کرے اور انھیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے .آمین
*تصویر غالبا ہماری پانچویں سالگرہ کی ہے ،ان دنوں احتراما تحفے بزرگوں سے کھلواے جاتے تھے,دوسری تصویر میں اماں کی ستر کی دہائی میں بنائی جلدوں والی کچھ کتابیں جو اب بھی محفوظ ہیں .
قر ة العین صبا
Comment by Faraz Ahmed
خوبصورت ۔۔کیا یاد دلا دیا ۔۔ بچپن اور لڑکپن میں اماں کے ساتھ گزرا سارا وقت اور یہ وقت بہت سارا اس لیے تھا کہ میں کچھ عرصہ گھر چھوڑ کر اماں کے ساتھ رہا۔۔بچپن میں کہانیاں پڑھنے کا چسکا اماں نے ڈالا فیروز سنز سے اشتیاق احمد پھر ابن صفی اور پھر بازی گر سب کچھ اماں نے پڑھایا ۔۔ اماں باکمال تھیں ۔۔ ایک اور پیاری بات جو اس وقت اتنی پیاری نہیں لگتی تھی وہ چڑیوں کا دانہ تھا جواماں کے لاؤنج سے جڑی ایک عجیب و غریب قسم کی بالکنی میں رکھا ہوتا تھا عجیب و غریب اس لیے کہ یہ ایک اونچی گہری ، پتلی اور لمبی بالکنی جس میں سیڑھی کے بغیر نارمل طریقے سے جانا ممکن نہ تھا اور جو پوری کی پوری سیمنٹ کے پیٹرن سے بنی جالی سے بند تھی، چڑیوں کا دانہ پانی اس کے ایک کونے میں رکھا جاتا تھا ۔ اس بندے کو سیڑھی سے اتر کر ان دو مٹی کے تشلوں میں سب سے زیادہ دانہ اور پانی ڈالنے کا اعزاز حاصل ہے ۔
جس بے دلی اور بے زاری سے اُس وقت یہ کام کیا جاتا تھا آج اتنا ہی پیارا اور انوکھا لگتا ہے اور اس روزانہ کی معصومانہ با مشقت عبادت کرانے پر اماں کے لیے دعا نکلتی ہے۔
کتابوں کے علاوہ اماں کو نئی اور پرانی فلمیں دیکھنے کا بھی شوق تھا اور اماں کے ساتھ رہنے کے سبب یہ فدوی اس عمل میں “ پارٹنر ان کرائم” ہوا کرتا تھا جس کے فرائض غیر منصبی میں کرائے کی ویڈیو کیسٹ لانا وی سی آر لگا کر اماں کے ساتھ دیکھنا ۔۔ اور اس پر اماں کے ساتھ ایک تنقیدی تبصرہ کر کے کیسٹ بمعہ پانچ روپے کرائے کے واپس پہنچانا ہوتا تھا۔ تبصرہ کرکے میں “کر کے” تو میں نے خود کو تھوڑی عزت دینے کے لکھ دیا ہے اس critical review میں زیادہ ریویو اماں کا ہوتا تھا میرا کام سننا اور کہیں کہیں لقمہ دینا ہوتا تھا ۔
سلیقے سے رکھا پاندان، گاؤن نما کوٹ، بکسے ، کتابیں، سودے کے پرچے، ملازموں کے حساب کتاب ، بجلی گیس کے بلوں کا کھاتہ ۔۔اماں کی پرسنل مینجمنٹ بہترین تھی ۔الاعظم اور النصیر کی سارے بازار اور اپنے محلے میں “خالہ” کی اپنی ایک پہچان تھی۔ صبح صبح بازار کے راؤنڈ کے بعد اماں اپنی کرسی سنبھالتیں اور چھوٹا سا دربار لگا لیتیں جو شام تک چلتا ۔ ماسی حنیفہ آپا کام کے بعد وہیں بیٹھ کر خالہ سے گپیں لگاتیں ۔ ان کا بیٹا عرفان سودا لا کر وہیں حساب دیتا ۔۔ دھوبی سے بھی ادھر ہی دو دو ہاتھ ہوتے اور شام میں کوئی رشتہ دار سلام کے لیے آتا تو وہیں پر تواضع ہوتی اگر اماں کسی کو کمرے میں بٹھا کر اے سی چلوا دیتیں تو میں سمجھ جاتا کہ مہمان وی آئی پی ہے۔
کھانا پکانے کا اماں کو شوق تھا ہر چیز کو بڑے چاؤ سے بناتیں۔ دال مٹی کی ہانڈی میں بنتی ۔۔ سل پر مصالحے پستے ۔۔ مصالحہ بھری مرچیں ہو یا اچار ہر ایک میں پرانے وقتوں کا سلیقہ تھا۔ امارت نا تھی پر اہتمام پورا تھا۔
مذہب کے معاملے میں اماں وسیع المشرب تھی نہ کبھی خود نماز پڑھی نہ پڑھائی لیکن میلاد کا اہتمام پورا ہوتا تھا سبیلوں کا چندہ بھی جاتا تھا اور حلیم بھی گھوٹا جاتا تھا ہمارا معاشرہ اس وقت سچا مسلمان نہیں ہوا تھا اس لیے محرم میں سامنے والے زیدی صاحب کے ہاں آیا دودھ والا گلابی روح افزا ہم اماں کے ساتھ بغیر کسی guilt کے غٹاغٹ پی جاتے تھے۔
مجھ سے ابھی کسی نے ایک انٹرویو میں پوچھا کہ آپ کو کہانیاں لکھنے کا شوق کیسے ہوا تو میں نے کہا کہ مجھے میری نانی نے کہانیاں بہت پڑھائی ہیں۔
خدا جنت نصیب میں درجات بلند کرے۔آمین
Childhood
(Visited 1 times, 1 visits today)