Eid Memories

ہمارے ایک خالو تھے، اللہ اُنکے درجات بلند کرے۔جب مجھ سے بڑے دو بھائیوں کی شادی کا وقت آیا تو امی نے کہا کہ بھائی جان میں سوچتی ہوں کہ ان دونوں کی شادی ایک ساتھ ہی کر دوں۔ اُنہونے بڑے رسان سے کہا ” دیکھو بھئی، خوشیاں ویسے ہی ہمارے پاس کم کم ہوتی ہیں ۔اُنہیں ساتھ نہیں ملانا چاہیے بلکہ الگ الگ آرام سے منانا چاہیے” اُنکی بات سب کو پسند آئی یوں بھی بڑوں کی ذمےداریاں اور مصلحتیں اپنی جگہ لیکن اُن دِنوں ہمیں بھائیوں کی مہندیوں میں حلق پھاڑ پھاڑ کے گانے گانے کا بے حد شوق تھا تو ہم تو کبھی بھی ایک ساتھ ساری تقریبات کے حق میں نہیں رہے لیکن اب میں وہ خوشیاں ایک ساتھ منانے والی بات سوچتی ہوں تو پاکستان کی عیدیں مجھے ویسی ہی معلوم ہوتی ہیں۔
بے شک عید کے تین دن بہت خاص اور خوشی سے بھرپور ہوتے ہیں لیکن پچھلے سال میں نے محسوس کیا کہ تینوں دن خوشی منانے کے بجائے لوگوں پہ خاندان والوں سے عید ملنے کا پریشر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اکثر جگہ عید کی خوشی کوفت میں بدل جاتی ہے۔
عید تو نام ہی اپنوں سے ملنے ملانے اور رونق میلے کا ہے لیکن جب بھی کسی چیز کو پابندی بنا دیا جاتا ہے وہیں اس سے چڑ اور بیزاری محسوس ہونے لگتی ہے چاہے موقع خوشی اور عید کا ہی کیوں نہ ہو۔
ایک جگہ ایک خاندان سے ایک وقت میں ملاقات ہو جانا کافی نہیں سمجھا جاتا بلکہ ملنے سے زیادہ گھر آنا اور کھانا کھانا ضروری سمجھا جاتا ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں برا بھی منایا جاتا ہے اسکا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایک ہی لوگوں سے مسلسل تین دن تک ملتا رہتا ہے اور باقی دوستوں اور رشتےداروں سے ملنے کا وقت نہیں مل پاتا۔ بعض جگہ تو ایک ہی دن میں ایک ہی گروپ کے ساتھ ناشتے ،دوپہر کےکھانے اور رات کے کھانے کی دعوت کا اہتمام ہوتا ہے. میرا خیال ہے کہ اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو کراچی کی سڑی ہوئی گرمی پھر بے ہنگم ٹریفک کا اژدھام، جس میں ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک جانے میں ہی عید کی ساری تیاری برابر ہو چکی ہوتی ہے، پھر رمضان کے فوراً بعد ابھی معدے عادی نہیں ہوتے کہ اُنہیں حلق تک بھرنے کا اہتمام کر لیا جاتا ہے ۔ اب کہیں جا کے نہ کھاؤ تو پھر ناراضگی دوسری طرف خاتونِ خانہ کی محنت کے ساتھ الگ زیادتی ہوتی ہے جو شدید تپش میں کھڑے ہو کے مہمانوں کے لیے انواع اقسام کے کھانوں کا اہتمام کرتی ہیں لیکن مہمان انصاف ہی نہیں کر پاتے.سچ تو یہ ہے کہ عید کے دنوں میں سب تھک کے چور اور آدم بیزار ہو چُکے ہوتے ہیں نہ کسی سے ملنے کا دل چاہتا ہے اور نہ کچھ کھانے کا ۔ اب اِدھر تین دن گزرے ادھر سب ختم, جامد خاموشی۔ اگلے ویک اینڈ پہ وہی یکسانیت اور بوریت اب کیا کریں؟
کینیڈا کی عیدیں تھوڑی مختلف ہوتی ہیں۔ شروع میں تھوڑا عجیب لگتا تھا لیکن اب اچھا لگنے لگا ہے ،چونکہ یہاں چھٹی سب کو خود سے لینی پڑتی ہے اسلیے یوں تو عید ایک دن منائی جاتی ہے لیکن ویکینڈ ساتھ مل جائے تو تین دن اور مل جاتے ہیں ۔اب تو کورونا کے سلسلے میں پارٹیز بند ہیں لیکن ہوتا کچھ یوں ہے کہ ایک نے کھانا یا اوپن ہاؤس رکھ لیا تو سکون سے سب ایک جگہ مل لیے اوپن ہاؤس میں میزبان چار چھ گھنٹے یا دن مقرر کر دیتے ہیں اور بلاوا دے دیا جاتا ہے۔اب جس کو جب سہولت ہو ملنے آ جاتا ہے اور اس بہانے بہت سارے لوگوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔میزبان کو بھی مہمانوں کی تعداد کا اندازہ ہوتا ہے اور مہمان بھی اپنا آنا اور متوقع وقت بتا دیتے ہیں، کنفرم نہ کرنا اخلاقی طور پہ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح دوسرے دن کسی دوسری جگہ دعوت بک ہوتی ہے۔ رمضان میں ہی لوگ ویک اینڈ پہ عید کی دعوتیں بک کرنا شروع کر دیتے ہیں یوں یہ ملنا ملانا بقر عید تک جاری رہتا ہے ۔ہر ہفتے تیار ہونا بھی اچھا لگتا ہے اور کھانے بھی مروت کے بجائے ذائقہ محسوس کر کے اور مزے لے کے سکون سے کھائے جاتے ہیں۔
ہماری کچھ ریتیں اور روایتیں بہت خوبصورت ہیں لیکن کچھ اُلجھی ہوئی ہونے کے باوجود صرف اسلیے اپنائی جاتی ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سے یونہی چلتی چلی آ رہی ہیں۔ موقع عید کا ہو ، شادیوں کا یا خوشی کے اور موقعوں کا ، کوشش یہ ہونا چاہیے کہ اس سے خوشی ہی کشید ہو، اُسے اپنے اور دوسروں کے لیے خواہ مخواہ کے اصول مسلط کر کوفت اور بیزاری کا باعث نہ بنایا جائے کیونکہ عید تین دن کی ہوتی ہے لیکن ملنے ملانے اور خوشیاں منانے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں کہ جب پیارے مل جائیں جب ہی عید ہو جاتی ہے۔ *
تصویریں کووڈ سے پہلے کی عیدوں کے اوپن ہاؤس کی ہیں جب کل ملا کے دن بھر سو کے قریب مہمانوں کا آنا جانا رہتا تھا اور اہتمام کے ساتھ ساتھ خوشی بھی بہت ہوتی تھی۔ امید ہے کہ ہم ہم دوبارہ وہ خوشیاں منا پائیں گے ،انشاءاللہ
(Visited 3 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *