CaC 1000 PLUS asked everyone in a group to share their Lock down Kahani tou Hum ney bhi likhi, aap bhi parhiye. Is Safar ka Vlog bananey ka irada tha dekehen kab Banta hy
#lockdownkahani
#CalciumAwareness
جب چھ سال بعد اپنوں سے ملے کی خوشی اور اپنی زمین پر پہ دوبارہ قدم رکھنے کی چاہ میں پاکستان جانے کی تیاریاں کر رہے تھے تو خیال میں اگر کچھ تھا تو کراچی کی شاموں کی ٹھنڈی ہوا، بھائی بہنوں کے ساتھ خوش گپیاں، دوستوں کی محبتیں ،مزے مزے کے کھانے ،دعوتیں اور وہ سارا ناسٹلجیا جو پاکستان میں گزارے بائیس سال نے دیا تھا اور جو سالوں بعد بھی ساتھ نہیں چھوڑتا تھا۔
مجھے کینیڈا آئے سترہ سال ہونے کو تھے۔ پردیسیوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا حال اپنا احساس کسی کو سمجھا نہیں سکتے۔ پاکستان میں رہنے والا ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ باہر رہنے والے صرف عیش کرتے ہیں لیکن زندگی کی گاڑی کو دھکا لگانے کے پیچھے یہاں کس قدر محنت ہے اسکا اندازہ اُنکے گمان میں بھی نہیں۔
میں اپنی جاب کے آخری دن کے بعد جب یخ بستہ گاڑی کو اسٹارٹ کرتے ہوئے اپنے دستانوں تلے گاڑی کا اسٹیرنگ پکڑے اُسکے گرم ہونے کا انتظار کر رہی تھی تو اطراف کی ٹھنڈ اور سارا دن کی تھکن کے باوجود میرے اندر چھٹیوں کا خیال ،پاکستان جانے کی خوشی اور سفر کی گرم جوشی کا احساس ایک الگ ہی حدت پیدا کر رہا تھا۔
ہم اپنے بجٹ اور پیاروں کے لیے لئے گئے تحفوں کے حساب کتاب اور کھینچا تانی سے تھک چُکے تھے لیکن اب بھی کچھ نہ کچھ باقی تھا۔ ان پچھلے چھ سالوں میں کس کی شادی ہوئی، کس کے ہاں ولادت ہوئی، کس کے بچے کتنے بڑے ہیں اور کس نے کیا کیا منگوایا یہ ساری چیزیں گویا باہر والوں کے ہر سفر سے نتھی ہوتی ہیں حالانکہ سچ کہوں تو جو آپ سے محبت کرتے اُنہیں ان تحفوں کی پروا نہیں ہوتی اور جو آپ کی چاہ کو ان تحفوں کے ذریعے تولتے ہیں اُنہیں انکی قدر نہیں ہوتی، لیکن دستورِ زمانہ ہے اور صحیح بات تو یہ ہے کہ اس تیاری اور خریداری میں وطن جانے کی ساری خوشی چھپی ہوئی ہے کیونکہ سالوں بعد یہ وہ واحد وقت ہوتا ہے جب آپ کسی شادی کی تیاری کی طرح پردیس میں شاپنگ کرنے رہے ہوتے ہیں۔
مارچ کے پہلے ہفتے کی بکنگ تھی، کینیڈا میں کورونا کے پانچ کیس تھے اور پاکستان میں شاید 2، ہم نے اپنی 2 مہینے پہلے کی گئی بکنگ کو ٹٹولا اور تشویش کا اظہار کیا تو بچوں نے کئی ویڈیوز لا کے سامنے رکھ دیں۔اسوقت غالبا ڈاکٹروں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ کورونا دراصل ہے کیا, سفر سے متعلق سوال کا جواب یہ تھا کہ پلان کینسل نہ کریں بس احتیاط رکھیں اور ماسک کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ وہ لوگ لگائیں جنہیں نزلے کھانسی کی شکایت ہو ،عام لوگوں کو ضرورت نہیں یوں بھی ٹکٹ کینسل کروانے کی صورت میں ہزار ڈالر سے اوپر کا جو ٹیکہ لگنا تھا جیب اسکی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔
ہمیں پندرہ دن پاکستان میں رہنا تھا اور پندرہ دن دبئی میں ۔سفر خوشی کے ساتھ شروع ہوا، سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ جہاز بھرے ہوئے تھے ۔ پہلا ہفتہ ملنے ملانے کا تھا اور دوسرے ہفتے میں بچوں کو اپنا کراچی دکھانا تھا لیکن پہلے ہفتے کے بعد ہی وہ ہوگیا جس نے دنیا ہی بدل دی۔ ہم نے بدلتے حالات دیکھ کے بہت تگ ودو کے بعد اپنی واپسی فوراً کروا لی، ،دبئی والوں کی شدید کوششوں کے باوجود اب وہاں جانا ممکن نہیں رہا تھا، پھر جس دن ہماری واپسی تھی اسی دن ساری پروازیں منسوخ ہو گئیں۔
لاک ڈاؤن میں شروع کے دن تو ہنس کھیل کے گزر گئے، اچھی بات ہوئی تھی کہ میاں آفس کا لیپ ٹاپ ساتھ لے آئے تھے اُنہیں رات کو جاگ کے کینیڈا کے وقت کے مطابق کام کرنا پڑتا لیکن شکر تھا کہ جاب لگی رہی۔
خوش قسمتی سے ہم جہاں ٹھہرے وہاں نیچے کا ایک پورشن خالی تھا جسے ہم نے اپنا عارضی گھر بنا لیا یوں اتنا ہوا کہ کسی کو ہماری وجہ جگہ نہیں بنانی پڑی لیکن پاکستان میں بند گھروں کی آباد کرنا بڑا مشکل کام ہے ،دھول مٹی، کیڑے مکوڑے،چھپکلیاں سب سے خوب واسطہ پڑا لیکن اس سے یہ ہوا کہ صفائی ستھرائی کے مارے کینیڈین بچے جو مکھی سے ڈر جاتے تھے آخر میں چھپکلی سے بھی دو دو ہاتھ کر نے کے قابل ہو گئے۔
ویسے تو وقت ٹھیک ہی گزر رہا تھا۔بچوں کو اس بہانے جوائنٹ فیملی میں رہنے اور پاکستان کے ماحول کو جاننے کا موقع ملا لیکن مسلہ جب شروع ہوا جب یہ اندازہ ہوا کہ پاکستان کی بیشتر عوام کورونا کو ماننے کے لیے تیار نہیں، روزآنہ ایک نئی کنسپرینسی تھیوری تھی۔ جھوٹی خبروں کی بہتات اور اس پہ صدق دل سے ایمان لاتے لوگ۔ کبھی بل گیٹس، کبھی دجالی فتنہ اور کبھی یہودی سازش۔ یہ بے حد مشکل مرحلہ تھا۔ مسجدیں بند ہوئیں تو چوری چوری نماز پڑھنا فرض ہو گیا رہی سہی کسر عید کے قریب بازار کھول کے حکومت نے پوری کر دی اب مزید چیلنجرز کا تھے ۔ احتیاط کرنے والوں کو طنز اور مذاق کا سامنا تھا ۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ۔کینیڈا میں شدید لاک ڈاؤن کی خبریں پڑھتے تو سمجھ نہیں آتا کہ کیسے سمجھائیں۔ عید بھی بھرپور منائی گئی اور اُسکے بعد تو جیسے ہر طرف کرونا پھوٹ پڑا پھر ہم نے صرف وہ کام کیا جو ہمارے بس میں تھا یعنی اپنی قوت مدافعت بڑھانا اور واقعتاً ہم نے روزآنہ کے حساب سے سی اے سی وٹامن خود بھی پینا شروع کر دیے اور بچوں کو بھی پلائے اور بعد میں اپنے ساتھ کینیڈا بھی لائے اور اسکا شکریہ بھی ہم نے بعد میں کمپنی کو انسٹاگرام پہ میسج کر کے ادا کیا ۔
حکومت کی طرف سے فلائٹس چلائی گئی تھیں لیکن پی آئی اے کا دو تین لاکھ کا ایک ٹکٹ لینا ہمارے بس کی بات نہیں تھی اور پھر جس حال میں پروازیں آ رہی تھیں اس سے بہتر اِنتظار تھا۔ خدا خدا کر کے قطر ائر ویز چلی ،ٹکٹ نسبتاً مناسب تھا، لیکن اسوقت شدید گرمی ،کورونا اور گھر کے احساس نے وہ حالت کر دی تھی کہ ہم ہر حال میں گھر پہنچنے کو تیار تھے۔
وہ سفر بھی وحشت زدہ تھا (اُسکا احوال بھی ہم شئر کر چُکے ہیں) تین جہاز بدلتے گھنٹوں ائر پورٹ ٹرانزٹ کے بعد گھر پہنچے تو نہ پوچھیں کہ کیا حالت تھی۔ دل چاہ رہا تھا در و دیوار سے لپٹا جائے۔ تین مہینے بعد بچے اپنی چیزیں اور کھلونوں کو چھو چھو کے یقین کر رہے تھے کہ ہم واپس آ گئے ہیں۔ ہم اپنے گھر میں تھے۔ بیشک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ۔
یہ تھی ہماری لاک ڈاون کہانی۔ بس افسوس ہے تو یہ کہ بچوں کو اصل پاکستان نہیں دکھا سکے۔ اُن کے لیے پاکستان کا امیج کرونا پہ مذاق بناتے لوگوں اور نئی نئی کنسپرانسی تھیوریوں تک محدود رہ گیا ہے ۔انشاء اللّٰہ اللّٰہ تعالیٰ نے موقع دیا تو انہیں پاکستان کی رونقیں اور خوبصورتی اور مثبت رخ بھی ضرور دکھائیں گے۔
آخر میں گذارش ہے کہ انڈیا کا حال دیکھیں، کینیڈا میں بھی ہم لوگ دوبارہ شدید لاک ڈاؤن میں ہیں اور ہماری عید بھی ایسے ہی گذرے گی۔ کئی قریبی لوگ اپنے پیاروں کو کورونا کے ہاتھوں کھو چکے ہیں۔ خدارا دوبارہ غلطیاں نہ دہرائیں، ہمارے ملک میں اس سے نمٹنے کی سکت نہیں ہے ، سوچیں ،سمجھیں ،بہت احتیاط کریں
*
تصویر پاکستان کی ایک تاروں بھاری رات کی ہے جب آدھی رات کو لائٹ چلی گئی