ہماری امیوں کے زمانے میں “ریسائیکل” اور “فیوژن” جیسے الفاظ تو عام نہیں تھے لیکن چیزوں کو ضائع کرنا بہت برا سمجھا جاتا تھا خاص طور پہ رزق کو۔کوئی چیز بچ جاتی تو اسے استعمال میں لانے کے لیے نئی شکل دینے کی کوشش کی جاتی۔کبھی کبھی تو یہ تجربے بہت کامیاب رہتے جیسے بچے ہوئے آلو گوشت کی بریانی یا کل کے بچے ہوئے قورمے کا حلیم لیکن کبھی کبھی ایسے تجربے کافی دکھی بھی کر جاتے۔ایک بار ایسا ہی ہوا ۔
کالج کے دن تھے اور رمضان کا مہینہ۔کچن میں جھانکا تو پتا چلا کہ آج شاہی ٹکڑے بن رہے ہیں۔ چشمِ تصور میں پستے بادام کی باریک ہوائیوں اور چاندی کے ورق سے سجے زعفرانی شاہی ٹکڑے گھوم گئے۔رمضان،روزے کی حالت اور اس پہ شاہی ٹکڑوں کا عندیہ۔ہم نے باقی گھر والوں کو بھی یہ خوش خبری سنانے میں زیادہ دیر نہیں لگائی تصور میں شاہی ٹکڑوں نے کافی مگن رکھا۔ خدا خدا کر کے افطار کا وقت آیا اور پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
دسترخوان چننتے ہوئے جب بڑی اُمید کے ساتھ تصور
میں سجی شاہی ٹکڑوں کی ٹرے اٹھانے گئے تو پیالے میں عجیب سے ملغوبے کو دیکھ کے دل دھک سے رہ گیا۔”یہ کیا ہے” اس اُمید پہ کہ یہ یقیناً وہ نہیں جسکی ہم اُمید لگائے بیٹھے ہیں لیکن جواب وہی آیا جو ہم سننا نہیں چاہتے تھے یعنی “شاہی ٹکڑے” .پتا چلا کہ دودھ پھٹ گیا جس کو ری سائیکل کرنے کے لیے پہلے کھیس بنانے کی کوشش کی گئی ،وہ تجربہ بھی کچھ مناسب نہیں رہا تو ڈبل روٹی کو پروجیکٹ کا حصہ بنا کے ایک نیا فیوژن تخلیق کیا گیا اور دوسروں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اسے ببانگ دہل “شاہی ٹکڑوں” کا نام بھی دے دیا گیا۔
وہ ڈش تو کس نے کھانی تھی لیکن ہمارے دل ٹوٹنے کا مذاق خُوب بنا اور شاہی ٹکڑے ہمارے نام کے ساتھ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔
اصولاً تو اس کے بعد ہمیں شاہی ٹکڑوں سے چڑ ہو جانی چاہیے تھی لیکن انکو دیکھتے ہی چشم تصور میں بہت کچھ چلا آتا ہے ۔کالج کے دن،پاکستان کا رمضان،افطاری کا دسترخوان، کچن میں کھانا ضائع ہونے سے بچانے کے جتن کرتی اور فیوژن ڈشز بناتی اماں اور ذمےداریوں سے آزاد بے فکری سے چھیڑ خانی کرتے بھائی۔
Here is the instagram link
https://www.instagram.com/my_tcatering/
کیا کسی خاص ڈش سے آپکی بھی کچھ یادیں وابستہ ہیں؟