کل افطار کے بعد حسبِ معمول چاۓ کا دور چل رہا تھا، مغرب سے عشاء کے درمیان پورے دن میں یہ وقت بڑے سکون کا ہوتا ہے، روزے میں دن بھر کی مصروفیت سحری افطاری، اسکول، یونیورسٹی، دفتر سب نمٹا کے گھر کے افراد ساتھ بیٹھتے ہیں تو دن بھر کی خاموشی کے بعد شور سا مچ جاتا ہے۔
پہلا پرندہ گھونسلے سے اڑ گیا
گیا۔
یوں تو بیک ٹو اسکول کا موقع ہر سال آتا ہے لیکن اس بار تھوڑا مختلف تھا۔ ایمٹی نیسٹ سینڈروم کا احساس کیسا ہوتا ہے اس کا اب اندازہ ہوا،
تقریب رونمائی “موتیا کی خوشبو میپل کے رنگ “، ملٹن کینیڈا
کراچی کی سردی کے خوشگوار موسم اور اپنوں کے ساتھ گزارے خوبصورت اور یادگار لمحوں کے بعد کینیڈا کی برف زدہ شاموں سے دوبارہ دوستی کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے، خاموشی، اندھیری دوپہریں، جامد سا ماحول اور سونے پہ سہاگہ جیٹ لیگ کی بدولت بے وقت کا سونا جاگنا، دل پُکار پُکار کے کہہ رہا ہوتا ہے کہ “چل اڑ جا او بھولیا پنچھیا تیرا کوئی “
“نہیں پردیس میں
یہ واردات ہر پردیسی پہ گزرتی ہے
پھر آہستہ آہستہ یاداشت کو واپس لانا پڑتا ہے کہ او ہیلو ہوش میں آؤ،جاگ جاؤ ، اب یہی دیس ہے، گھر بچے منتظر ہیں، اپنے کام سنبھالو، نہاری قورمے پکاؤ بہُت ہو گئے عیش اور یہ جو ایک نئی دنیا کینیڈا میں بسا کے بیٹھے ہو اس کی خبر لو، دوست منتظر بیں، موتیا کی خوشبو یہاں تک پہنچ چکی ہے احباب مشتاق ہیں کہ کب میپل کے رنگوں کی بات ہو اور کتاب سے ملاقات ہو، تو جناب وہ وقت بھی آ ہی گیا