محترم لوگوں کی تحریروں کی ہے کیونکہ ایسی حوصلہ افزائ کسی نو آموز صاحبِ کتاب کو کم کم میسر آتی ہے۔
میں مشہور لوگوں خاص کر سینئر شعرا اور ادیبوں ، مفکروں اور اس سے زیادہ “تھوڑے کم مشہور “ شعرا اور ادیبوں اور مفکروں سے تھوڑی خائف رہتی ہوں کیونکہ سب تو نہیں لیکن زیادہ تر لوگ آپ کی تربیت اور ہمت بڑھانے کے بجاۓ آپ کی ہمت توڑ دیتے ہیں ،عارفہ آپا نے میرے اس تاثر کو بالکل ہی غلط ثابت کر دیا۔ آج اگر دیکھا جاۓ تو پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دینا بھر میں وہ ایک درخشاں ستارہ ہیں، کوئی پروگرام ہو، کانفرنس ہو، سیمینار ہو، بس ان کا نام لگنے کی دیر ہے اور لوگ جوق در جوق امڈ تے چلے آتے ہیں۔
لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں وہ کیسی ہیں ؟
میں ان سے جتنی بار ملی بعد میں سوچتی رہ گئی کہ یہ بات کر لیتی، یہ پوچھ لیتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں ہر بار ان کی گفتگو، رویوں اور لوگوں کے ساتھ ان کے برتاؤ سے گنگ سی رہ گئی اور سوچتی رہی
کہ ایسےاوصاف پیدا کرنے کے لئے کتنی ریاضت درکار ہوتی ہے ؟
ہر ملنے والے سے کوئی تھوڑا سا بھی جانا پہچانا جاتا ہو تو آپ آگے بڑھ کے گرمجوشی سے ملتے ہوۓ خود ہی کہہ دیتی ہیں کہ جی آپ وہ ہیں, میں آپ کو جانتی ہوں، یادداشت اور علم تو ہے ہی کمال، ملنے والا یوں احترام پا کے سرشار سا ہو جاتا ہے کہ گویا ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو، عام آدمی سے بھی یوں ملتی ہیں کہ وہ خود کو خاص محسوس کرنےلگتا ہے ، ایک ڈیڑھ گھنٹہ کھڑے رہ کر گفتگو کرنے کے بعد شدید تھکن کے باوجود لوگوں کا ایک جم غفیر ساتھ تصویر لینے کا منتظر تھا لیکن مجال ہے جو کسی کو مایوس کیا ہو۔
کسی کی بے عزتی کرنا کسی کو ہلکا محسوس کروانا بہت آسان ہوتا
ہے لیکن خود ایک مقام پہ پہنچ کر دوسروں کو اتنی عزت دینا بہت مشکل کام ہے, اس کے لئے بہت اعلیٰ ظرف چاہیے ہوتا ہے۔
اس بار کینیڈا میں ان کا بیشتر وقت علالت میں گزرا لیکن ماشااللہ ان کی اینرجی ہمیں شرمندہ کر دیتی ہے، کسی نے دل دکھایا ، کسی سے ناراضگی ہوئ لیکن گفتگو اتنی احسن ہوگی کہ آدمی حیران جاۓ کہ ہم جیسے ہوں تو گھر تک پہنچا کے آئیں اور آپ نے ایسے خوبصورتی سے بات کی کہ دوسرے کو ذراسی بد مزگی نہ محسوس ہو۔
عاجزی اس خاندان کا مزاج ہے، ان کی بہن سمن آپا سے ملاقات ہوئ تو اندازہ ہوا ۔مجھے عارفہ آپا کے حوالے سے کسی کے غیر متوقع رویے سے تھوڑا شاک لگا” عارفہ آپا ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا یہ تو بہت غلط بات ہے” ، مسکرا کے بولیں ،”چلیں چھوڑیں آیئں گرم گرم سموسے کھائیں چاۓ پیتے ہیں”، میں اور سمن آپا مسکرا دیے ، کیسے مزے سے بات بدلی، تو یوں کسی کی برائی یا غیبت کا رخ موڑنا چاہئے، میں نےپلو سے باندھ لیا(بس اللہ توفیق دے)۔
میں بہت زیادہ تجربہ کار تو نہیں لیکن عمر کے جس حصے میں ہوں وہاں شخصیت پسندی اور بت تراشنے سے پرہیز کرتی ہوں کہ میں نے بہت سے بت بنتے ٹوٹتے دیکھے ہیں، بہترین بات یہ ہے کہ انسانوں کو انسان سمجھا جاۓ ان کے اچھے اوصاف کو سرہایا جاۓ ، انھیں گنجائش دی جاۓ اور جس سے جو کچھ بھی اچھا سیکھنے کو ملے سیکھا اور اپنایا جاۓ ، یہ تحریر میری خوشی اور ذاتی تجربے کا عکس ہے، اسے بت تراشی نہ سمجھیے گا۔ میری دعا ہے کہ خدا ہم سب کو سلیقے کے لوگوں کی صحبت اور اچھے اوصاف اپنانے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین
عارفہ آپا، سمن آپا، ، بہت شکریہ، خوش رہیں ، سلامت رہیں
(Visited 2 times, 1 visits today)