مدرز ڈے کے ٹیولپس

!پیاری دوستو

مدرز ڈے بس آیا ہی چاہتا ہے، شور و غوغاں میں نہیں آئیے گا اور نہ اس جھانسے میں کہ 

Everyday is Mother’s day

ہم تو ببانگ دہل کہتے کہ بھئی اگر ایسا ہی ہے تو روزانہ ہی تحفے تحائف کی رسم ہونی چاہئیے یا ہفتہ وار اور یہ بھی نہ سہی تو مہینے میں ہی ایک دن ہو جاۓ یا سال میں، بقول شاعر

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آۓ

ویسے سچ تو یہ ہے کہ اماں کا نام تو سارے گھر کے ہونٹوں پہ سارا سال ہی رہتا ہے جس کا پیش منظر کوئی نہ کوئی کام ہی ہوتا ہے لیکن جب بات دینے دلانے کی ہو تو عموماً صورتحال کچھ یوں ہوتی ہے کہ 

حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے

خوشبو کی زبانی تیرا پیام ہی آۓ

تو بھئی جب پوری دینا نے سماجی طور پر ایک دن ماوُں کے اعزاز میں منانا شروع کر ہی دیا ہے تو اسے خواہ مخواں تنقید کا نشانہ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔

سو ہم کچھ ایسا کرتے ہیں کہ گاہے بگاہے یاد دلانا شروع کر دیتے ہیں اور اب تو ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ بڑی بے شرمی کے ساتھ اپنے فیملی گروپ پہ وڈیوز اور تصویروں کی شکل میں “مدرز ڈے گفٹس آئیڈیاز اور سجیشنز” بھی شئر کرنا شروع کردی ہیں کہ کسی نہ کسی پہ کچھ تو اثر ہو ہی جاۓ گاخیر تو پچھلے ایک دو دنوں سے یہی سلسلہ جاری تھا۔

بڑے صاحبزادے کی ایک سیمسٹر کی انٹرنشپ ہے، آج گھر آۓ تو ہاتھ میں گلابی ٹیولپس کے پھول دیکھ کے ہمیں کچھ اچھنبا ہوا،

یہ کیا ہے۔۔ مدرز ڈے میں تو ابھی دو دن ہیں، کیا دیہاڑی مل گئی ہے آج ؟ ہم نے سوچا، اور اگر مل بھی گئی ہے تو اس قدر نازک خیالی کہ کیک مٹھائی کی جگہ ٹیولپس کا تحفہ، ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ انھونے لا کے گملہ ہاتھ میں پکڑایا

!Happy Mother’s Day

ہم نے انھیں کچھ شک کی نگاہ سے دیکھا، اب ہمارے شور کا ایسا بھی کیا اثر لینا کہ آدمی دو دن پہلے ہی مدرز ڈے منا لے اور پھر ایک خیال دل میں یہ بھی تھا کہ لو بھئی! ہم نے تو جو آئیڈیاز اور مشورے والی وڈیوز گروپ میں بھیجی تھیں اس میں تو پھولوں کے ساتھ گفٹس کے بڑے اچھے اچھے پیکیجز بھی بنے ہوۓ تھے ان کو شائد غور کرنے کا موقع نہیں ملا؟

 بیٹے صاحب اماں کی الجھن بھانپ گئے۔

یہ آج کمپنی نے سب کو دئیے تھے کہ تم سب مدرز ڈے کےلئے اپنی مدرز کو دے دینا ! 

ہم ہنس پڑے یہ ہماری سیدھی اولاد

وہی تو ہم کہیں۔۔۔

خیر کیا کہیں

رفیقوں سے رقیب اچھے جو جل کر نام لیتے ہیں

گلوں سے خار بہتر ہیں جو دامن تھام لیتے ہیں

یا پھر 

پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئے

حسرت ان غنچوں پہ ہیں جو بن کھلے مرجھا گئے

ویسے ٹیولپس کا رنگ انھوں نے خود منتخب کیا تھا، اچھے لگ رہے ہیں باقی اقبال سے معذرت کے ساتھ 

چار سو تجھے دینے ہیں ابھی یہ چار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ

قر ة العین صبا

 

 

(Visited 5 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *