Healing

زخم مندمل نہیں ہوتے ، زمانے گزر جاتے ہیں لیکن گھاؤ وہیں کے وہیں کیونکہ ہیلنگ نہیں کی جاتی۔۔۔ اور کیوں نہیں کی جاتی ؟
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کا کوئی علاج بھی ہے یا پھر ان کا علاج کرنا چاہیے تاکہ باقی عمر سکون سے کٹ سکے ، لوگوں کی کی ہوئی زیادتیوں کا ناخوشگوار بوجھ ہم عمر بھر لاد کے پھرتے رہتے ہیں اور اکثر اپنی اگلی نسل کو بھی اس میں حصے دار بنا دیتے ہیں
ہاے میرے ساتھ اتنا برا ہوا ،
فلاں نے میرے ساتھ اتنی زیادتی کی،
اسکا رویہ ایسا تھا
میری زندگی کے قیمتی سال کسی رشتے کے ناروا سلوک کی نظر ہو گئے ،
ہر ہر کام پہ طعنے اور تشنے ملے،
میری ساری صلاحیتیں دبا دی گیئں وغیرہ وغیرہ
اور یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتی ، آدھی اور کبھی کبھی پوری زندگی گزر جاتی ہے یہی باتیں کرتے اور پھر اپنے آس پاس والوں اور پھر اولادوں اور پھر ان کی اولادوں کو سناتے لیکن درد کم نہیں ہوتا زخم مندمل نہیں ہوتے اور هوں بھی تو کیسے ہم خود ہی تو ہر تھوڑے دن بعد انھیں کھرچنے بیٹھ جاتے ہیں، نئے سرے سے پرانی کہانی دھرائی جاتی ہیں پھر خود کو اتنی ہی تکلیف دیتے ہیں اور اس میں دوسروں کو بھی حصّے دار بنا لیتے ہیں جبکہ درد کا درماں یہ ہے کہ زخم پہ مرہم رکھ دیا جائے ، ٹانکے لگا دیے جایں یا بینڈ ایڈ لگا دی جائے، زخم سلیں گے، تکلیف وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوگی اور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔
درد کا درماں نہیں کیا جاتا، زخموں کو سیا نہیں جاتا لہذا ہم مسلسل خود کو بھی اذیت دیتے رہتے ہیں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی اس تکلیف میں شامل رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتے۔
‏healing بہت ضروری ہے ، دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں ہوگا جس پہ مشکلیں نہ بیتی ہوں یا اس نے لوگوں کے برے رویوں کو نہ سہا ہو، خدا کے پیغمبر اور برگزیدہ ترین بندوں پہ ہر طرح کی مشکلات ٹوٹی ہیں اور انھیں لوگوں کی طرف سے بد ترین رویوں کا بھی سامنا رہا ہے، بیماری، کسمپرسی، سگے اور خونی رشتوں کا حسد، دشمنی، رشتہ داروں کی طرف سے ملنے والی بے اعتنائ، زمانے کی طرف سے ملنے والی بے عزتی، تنہائی اور اکیلا پن اور بہت کچھ ۔۔ایسا صرف آپ کے ساتھ نہیں ہوا،لوگوں کے پاس آپ سے زیادہ تکلیف دہ کہانیاں موجود ہوں گی لیکن فرق یہ ہے کہ آپ نے اپنے زخموں کوبھرنے نہیں دیا۔
جو گزر گیا وہ واپس نہیں آ سکتا اور نہ اسے ماضی میں جا کے ٹھیک کیا جا سکتا ہے، یہ بھی سچ ہے کہ انہیں بھلانا بھی آسان نہیں تو ان تکلیفوں کا بار بار ذکر کرنے کے بجاے انھیں سوچوں سے جھٹکنے اور نظر انداز کرنے کی کوشش کریں، ان یادوں اور احساسات کے ساتھ جنگ ختم کرکے امن قائم کریں، اور دوسری بات یہ کہ کہیں نہ کہیں بہت کچھ اچھا بھی ہوا ہوگا ہم ان باتوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے ؟ منفیت کو مثبت سے کیوں نہیں بدلتے ؟
جیسے پرانے سامان سے بھرے صندوق کو سمبھال سمبھال کے رکھا جائے اب اس میں کام کی چیزیں بھی ہوں گی، کچھ چیزوں سے جڑی اچھی یادیں بھی ہوں گی اور کباڑا، کوڑا کرکٹ، ٹوٹا پھوٹا سامان بھی ہوگا ، اپنا ٹراما ، اپنی منفیت ، اپنی تکلیف ہم اپنی اگلی نسل میں ایسے ہی منتقل کرتے ہیں، اب اگر اسی صندوق کو ایک بار کھول کر چھانٹ لیا جاۓ، کیا رکھنا ہے کیا پھینکنا ہے ایک بار تصفیہ کر لیں تو بات وہیں ختم ہو جاتی ہے، زندگی میں ٹھہراؤ یا سکون آجاتا ہے ، اگلے لوگوں کو بھی آپ کے منفی جذبات کا بوجھ نہیں ڈھونا پڑتا جو ان کی زندگیوں پہ بھی اثر انداز ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آگے کے راستے کھل جاتے۔
ہیلنگ ہو جائے ، بیمار کو قرار آجائے تو دنیا خوبصورت لگنے لگتی ہے، آگے بڑھنے کی تحریک ملتی ہے، اپنے وجود کے نئے پہلو نظر آنے لگتے ہیں جن کو کبھی دریافت کرنے اور ان کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہیں مل سکا کیونکہ ہم پرانی باتوں پہ بین کرنے میں ہی مصروف رہے۔
اپنے زخموں کو ہر تھوڑے دن بعد کریدنے کے بجاۓ انھیں بھرنے پہ توجہ دیں، جب یہ ہو جاتا ہے تو روح شاداب اور صحت مند ہو جاتی ہے اور نئے کام اور نئے کمالات ہوتے ہیں اور یاد رہے کہ نہ ہیلنگ کی کوئی عمر ہوتی ہے اور نہ کمال کرنے کی۔
قرۃالعین صباؔ
(Visited 7 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *