آج رضیہ پھر پھنس گئی تھی۔۔ غنڈوں میں تو نہیں بس اپنی پیاری پیاری الگ الگ پہچان رکھنے والی سہیلیوں میں۔
آفس میں لنچ کا بریک ہمیں اچھا لگتا ہے کیونکہ اس میں جب رنگ رنگ کے لوگ ایک جگہ بیٹھتے ہیں تو عموماً ہمارے ہاتھ کوئی نہ کوئی مزیدار کہانی ضرور لگ جاتی ہے۔آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
بات فلیشییا نے شروع کی تھی، میز کے ارد گرد ہم دو پاکستانی خواتین کے علاوہ، تین مختلف خطوں کی خواتین تھیں۔ فليشیا کے بیٹے سترہ اور اکیس سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور اُن کی ابھی تک کوئی گرل فرینڈ نہیں تھی( اور یہ بھی ایک مسئلہ تھا)
I think they love me so much
وہ استہرائیا ہنسی ہنسی۔
یہ مائیں کہیں کی بھی ہوں، متوقع لڑکی کی آمد کے خیال سے تھوڑی ان سیکیور ہی رہتی ہیں، ہم نے سوچا۔
تمہاری بیٹی کتنی بڑی ہے، اس نے ہماری پاکستانی دوست سے سوال کیا، انیس سال کی، جواب آیا۔ کیا اُسکا کوئی بوائے فرینڈ ہے؟ ہم دونوں کی نظریں ایک لمحے کو ملیں، یہ سوال کافی سٹ پٹانے والا تھا، “نہیں” اور ہمیں پتہ تھا کہ اب یہ بات نکلی ہے تو دور تلک جائے گی۔
کیوں؟ کیا اجازت نہیں ہے؟ “ہاں”، اس نے جواب دیا، کوشش تھی کہ بات مختصر رہے لیکن یہاں سوالوں کا ایک سلسلہ تھا۔
ہم نے چشمِ تصّور میں متوقع گفتگو کی تیاری کے لیے آستینیں چڑھائیں، اور آنے والے سوالوں کے لیے سوچ کے گھوڑے دوڑانے شروع کیے۔
اچھا تمہارے کلچر میں کب سے بوائے فرینڈ کی اجازت ہوتی ہے۔(اوہ بھئی، کچھ خدا کا خوف کرو، دماغ میں جب ایک لمحے کے لیے اپنے بچوں کو اُن کے گرل اور بوائے فرینڈ کے ساتھ سوچا تو استغفراللہ بس یہی ذہن میں آیا، لیکن یہ سوال کا جواب نہیں تھا)۔
ہمارے کلچر میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا کانسیپٹ نہیں ہوتا۔ہم نے آغاز کیا۔
ہیں؟ تو پھر وہ “ڈیٹنگ” کیسے کرتے ہیں(کر لو گل! 🙈)
چائنیز نژاد ایوا اب شدید تجسس میں مبتلا تھی۔
اصل میں اگر کوئی واقعی کسی کو پسند کرتا ہے اور اس سے رشتے کے معاملے میں سنجیدہ ہوتاہے تو وہ اپنے گھر والوں کو بتاتا ہے، پھر فیملی ملتی ہے اور اُن کا رشتہ طے کر دیا جاتا ہے، یوں وہ منگیتر بن جاتے ہیں اور پھر مناسب وقت میں اُن کی شادی کر دی جاتی ہے۔
تو والدین کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا؟ فلشیا پر تجسس تھی۔
ہمم.. اکثر نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی ہوتا بھی ہے، اصل میں لڑکا لڑکی کے علاوہ خاندان فیملی بھی دیکھی جاتی ہے تاکہ دونوں میں بعد میں ہم آہنگی اور برابری رہے، لڑائی جھگڑا نہ ہو۔
اور یہ سب وہ کب کر سکتے ہیں؟ فلشیا کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
جب بھی وہ اس کے لیے تیار ہوں، ہم نے گول مول جواب دینا چاہا۔
فورٹین، ففٹین؟
ارے نہیں نہیں، اب گفتگو کو طول دینے کا وقت تھا، آج یہ بیبیاں پورے موڈ میں تھیں۔
بھئی دیکھو، ہم سب اسے ترجیح دیتے ہیں کہ بچے تھوڑے سمجھدار ہو جائیں، کم از کم اپنی پڑھائی پوری کرلیں، رشتہِ سمجھنے اور سنبھالنے کے قابل ہو جائیں کیونکہ پھر اگر کسی کو پسند کر لیں تو باقاعدہ شادی ہی کرنی ہوتی ہے یہ نہیں ہوتا کہ تھوڑے دِن بعد کوئی اور، اب کیونکہ ماحول بہُت بدل گیا ہے اور بچے ہر چیز سے وقت سے پہلے ایکسپوز ہو رہے ہیں تو اب اکثر والدین بھی پڑھائی کے دوران ہی رشتہ کر دیتے ہیں پھر جب وہ جاب کر لیں تو شادی ہو جائے کیونکہ پھر گھر اور خرچہ کیسے چلائیں گے۔
تو اسکا مطلب ہے کہ وہ جب ہی کسی کے ساتھ ریلیشن شپ بنا سکتے ہیں جب وہ واقعی اس کے ساتھ سیریس ہوں؟ ایوا نے سوال داغا۔
ہاں، کیونکہ ہمارے ہاں رشتوں کو بہُت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور پھر اُنہیں نبھایا جاتا ہے، کسی کے ساتھ وقت گزار کے پھر بغیر کسی وجہ کے اس کو چھوڑنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
فلیشيا خاموش تھی اور ایوا کچھ سوچ رہی تھی، پھر ایوا گویا ہوئی، یو نو، میں تمہاری بات سمجھ رہی ہوں، میری بیٹی چوبیس سال کی ہے، وہ تین سال اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہی پھر اس نے مجھ سے کہا کہ ماما میں اسکے بارے میں اب ویسا فیل نہیں کرتی جیسا پہلے کرتی تھی اسلیے میں اسے چھوڑنا چاہتی ہوں، تو مجھے اس لڑکے سے ہمدردی محسوس ہوئی (لو بھئی ، دل تو چاہا کہ کہیں کہ بہن ہمارے ہاں تو میاں بیوی کو ہر تھوڑے دن بعد ایک دوسرے کے لیے کچھ ایسا فیل ہونے لگتا ہے لیکن ایسے کھلے کھاتے والے آپشن نہیں ہوتے😄 )۔
ہم نے گفتگو کو سنجیدہ رکھا، اصل میں ایسا تو ہر ریلیشن شپ میں ہوتا ہے لیکن اسکا حل بور ہو کے پرانا رشتہ توڑنا اور نئے رشتے بنانا تھوڑی ہے، شادی سے ایک خاندان بنے، اسی لیے شادی میں صرف لڑکا لڑکی نہیں بلکہ فیملی بھی انوالو کی جاتی ہے۔
اچھا تو کیا تم اُنہیں اجازت دیتے ہو کہ اگر وہ الگ کلچر میں کسی کو پسند کر لیں اور شادی کرنا چاہیں۔
اب یہ بات ہو رہی ہے تو بس میں اسی لیے پوچھ رہی ہوں، ایوا نے دل پہ ہاتھ رکھ کے محتاط سا انداز اپناتے ہوئے گویا اس بات کی تصدیق چاہی کہ کہیں اُس کے سوالات ہمیں گراں تو نہیں گزر رہے۔(اِدھر ہم مدبر بن کے اُنہیں مطمئن کرنے کی کوشش تو کر رہے تھے لیکن اندر ایک خیال بھی تھا کہ بات ایسے کی جائے کہ صاف اور صحیح بھی ہو اور اعتراض کا کوئی نکتہ بھی نہ نکلے)۔
ہاں کر تو سکتے ہیں لیکن ہم یہ بہتر سمجھتے ہیں کہ اپنی کمیونیٹی میں ہی رشتے ہوں کیونکہ پھر آگے جا کے فیملی ڈسٹرب ہوتی ہے، کبھی کبھی ٹوٹ بھی جاتی ہے، بچوں پہ اثر پڑتا ہے، بچے کونسا مذہب اپنائیں، کونسا کلچر برتیں اس میں ہمیشہ اُلجھن رہتی ہے۔
اب فلیشا جیسے کسی خواب سے جاگی..
اوہ!
یعنی تم یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ تمہارا ہسبنڈ ہی تمہارا پہلا بوائے فرینڈ تھا؟
اب کھلکھلا کے ہنسنے کی باری ہماری تھی، ہمیں اپنے پہلے بوائے فرینڈ کا خیال آیا جسے ہماری امّاں اور گھر والوں نے ہمارے لیے چنا تھا اور رشتےداروں نے اینڈروس کیا تھا، اُدھر بوائے فرینڈ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہاتھ ہوا تھا، اُسکی امی نے ہمیں پسند کیا تھا یعنی
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے!
ان بیچاریوں کو تو ہارٹ اٹیک ہی ہو جائے اگر انہیں پتہ چل جائے کہ مشرق میں شادیاں کیسے ہو جاتی ہیں۔ اب تو پھر تھوڑا بدلاؤ آیا ہے لیکن ابھی بھی بستر مرگ پہ کوئی بزرگ بچے کی شادی کی خواہش کا اظہار کر دے تو اپنے بچوں کے جذبات سے بے نیاز آدھا خاندان جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے بیٹے بیٹی کے رشتے پیش کرنے کو تیار ہو جاتا ہے، ہمارے ہاں تو اس صورتِ حال پہ مبنی ڈرامے بھی خُوب ہٹ جاتے ہیں ، اس کے علاوہ “جو امی ابّا کی مرضی”, “پھپو کا بیٹا” ، “خالہ کی بیٹی”،”بچپن کی منگنی”، “عزت کا واسطہ”،”غیرت کا سوال” وغیرہ وغیرہ جیسی مختلف صورتِ حال میں مختلف حادثاتی شادیاں بھی پیش آجاتی ہیں، ہم خُوب ہنسے۔
ہاں، بلکل۔ ہمارے ہاں شادی ایسے ہی ہوتی ہے، ہسبنڈ ہی پہلا بوائے فرینڈ ہوتا ہے اور بیوی گرل فرینڈ۔
اوہ مائی گاڈ
تم تو مجھے شرمندہ کر رہی ہو، میرے تو شادی سے پہلے کئی بوائے فرینڈ تھے۔
نہیں خیر یہ تمہارا کلچر ہے تو تمھارے حساب سے ٹھیک ہے لیکن ہماری قدروں میں ٹھیک نہیں سمجھا جاتا، بلکہ معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن اب ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب چیزیں ہمارے ہاں بلکل نہیں ہوتیں، ہمارے معاشرے میں بھی یہ سب ہوتا ہے لیکن جن گھروں میں ویلیوز ہیں وہاں یہ سب ٹھیک نہیں سمجھا جاتا۔
خاص کر فزیکل ریلشنشپ کا تو شادی سے پہلے سوال ہی نہیں ہے۔مذہبی اعتبار سے یہ گناہ ہے۔
نہیں نہیں، فزیکل ریلشنشپ کے بغیر بس ایسے ہی بوائے فرینڈ ہو، فليشا کا اپنا فرمائشی پروگرام تھا، وہ فلپینو کرسچین ہے اور کبھی کبھی ایسے “گاڈ” کی باتیں کرتی ہے اور بات بات پہ یوں دعا مانگتی ہے کہ اس پہ کسی ملانی کا گمان ہوتا ہے۔
اچھا، تو اس طرح کے رشتے میں یہ کیسے پتہ چلے گا، اور کون ڈیفائن کرے گا کہ کتنی قربت یا دوری رکھنی ہے؟
اور ظاہر ہے فلیشیا کے پاس اسکا کوئی آسان جواب نہیں تھا۔
اب سوال کرنے کی باری ہماری تھی۔
اچھا فلیشییا، کیا تمہیں کبھی اپنے بوائے فرینڈز کا خیال آتا ہے؟ ہم نے سوال کیا؟
نہیں نہیں، بلکل نہیں، اس نے مکمل نفی کی جیسے لو یہ بھی کوئی بات ہے بھلا۔۔ ہاں بس جب، جب میرا میاں مجھ سے لڑتا ہے، فلشیا نے مزا لیا ،ہم سب ہنس دیے(یہ خیال بھی آیا کہ کیسی عام سی بات ہے کہ کسی لڑکی کی ڈھیروں لڑکوں سے بوائے فرینڈ والی دوستی رہی ہو اور پھر کسی اور سے شادی ہو جائے تو کسی کو کوئی فرق بھی نہیں پڑتا، ہمارے ہاں تو ٹوٹی ہوئی منگنی ہی لڑکی کے لیے ساری زندگی کا داغ اور عذاب بنا دی جاتی ہے اور افسوس یہ کہ یہ کلچر ہے مذہب نہیں)۔
یو نو، فلپائن میں ایک مسلم فیملی تھی اس آدمی کی پانچ بیویاں تھیں۔
فلیشیا نے گویا نوا کٹا کھولا۔
پانچ کی تو خیر کسی طرح اجازت نہیں،(ہائے! آگیا نازک موضوع)۔
تو ایک آدمی کی کتنی بیویاں ہو سکتی ہیں، ایوا متجسس تھی۔
اس وقت ہمیں عارفہ آپا رج کے یاد آئیں اور ہم نے دل ہی دل میں خوب شکر کیا کہ ہمیں کچھ ماہ پہلے اُن کے ساتھ بیٹھنے اور اُن کی گفتگو سننے کا موقع ملا، اسوقت یہ ذکر بھی نکلا تھا، ہمارے ساتھ ٹورنٹو 360 کے صحافی محبوب صاحب بھی تھے اور انہوں نے ہی یہ سوال اٹھایا تھا کہ دوسرے مذاھب کے لوگ مرد کی چار شادیوں کو بہُت موضوع بناتے ہیں، اُنہیں کیا جواب دیا جائے پھر ڈاکٹر عارفہ نے خاصا مدلل جواب دیا تھا جو اس لمحے خُوب کام آیا اور ہم نے اپنی یاداشت کے بل بوتے پر ہمارے برابراور سامنے بیٹھے متجسس چہروں کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی۔
دیکھو بھئی، عرب میں صدیوں پہلے جب یہ رولنگ آی اس وقت عورتوں کی ناصرف عرب کےکلچر میں بلکہ اور دوسری قومیتوں میں بھی کوئی حثیت اور اہمیت نہیں تھی۔ مرد جتنے اور جس سے چاہتے تعلق بناتے، شادیاں بھی کرتے اور بغیر شادی کے بھی کنیزیں رکھتے۔ اسوقت یہ چار شادیوں کی حد مقرر کی گئی گیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ چاروں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں، یعنی چاہے وہ چیزوں کی بات ہو یا وقت کی یہ شرط ہے کہ چاروں کو بلکل برابری سے رکھا جائے، اور اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو کہا گیا کہ اُن کے لیے ایک ہی بہتر ہے، یہ آیت کا وہ حصہ ہے جیسے ہائی لائٹ نہیں کیا جاتا اور سب چار شادیوں کی بات کرتے ہیں لیکن دراصل ایسا عام انسان کے لیے تو ممکن ہی نہیں ہے۔
“اوہ، دونوں نے “آئی سی” کہتے ہوئے سر ہلایا۔
ہم نے بات جاری رکھی،
ایک بات اور یہ بھی ہے کیونکہ عورت کی تمام تر ذمےداری مرد کی ہوتی ہے تو بیوی کسی ملکہ کی مانند ہوتی ہے، شوہر کا پیسہ بیوی خرچ کرنے کا پورا حق رکھتی ہے اور عورت کا پیسہ اُسکا اپنا ہوتا ہے۔
تمہیں پتہ ہے عرب کلچر میں اب بھی ایسا ہی ہے، وہاں پیسہ بھی وافر ہے اور اگر وہ اسی طرح چار رکھ سکتا ہو تو ضرور رکھے، یعنی ایک کو گاڑی لے کے دی تو باقی چاروں کو بھی بلکل ویسی ہی گاڑی ملے گی تو انصاف ہوگا۔
اوہ واؤ! اب وہ تھوڑی حیران حیران تھیں،یہ باتیں اور دنیا اُن کے لیے کچھ ماورائی سی تھی اور ملکہ اور گاڑیوں والی بات پہ شاید للچا بھی گئی تھیں۔
ہم نے بات جاری رکھی لیکن پھر بھی چاہے پیسوں کے معاملے میں برابری ہو بھی جائے تو ایک انسان اپنے وقت اور احساسات کو چار لوگوں میں برابر نہیں بانٹ سکتا جس کا اُسے حساب دینا ہوگا، اسلیے کہا گیا کہ ایک ہی بہُت ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ لوگ “پک اینڈ چوس” کر لیتے ہیں یعنی اپنی مرضی کی بات یاد رکھ لی جاتی ہے اور اصل بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
اب خواتین سوچ میں غرق تھیں، لگتا تو تھا کہ ہم نے اُنہیں کافی حد تک مطمئن کر دیا ہے۔ لنچ کا وقت بھی ختم ہو چکا تھا، اور گفتگو بھی خیر سے اختتام پذیر ہوئی۔ سب نے لنچ کے برتن سمیٹے اور خوش گپیاں کرتے ہوئے اپنی اپنی آفس ڈیسک کو سدھارے۔
آج ہم نے ایک سبق سیکھا تھا اور وہ یہ کہ ہمیں اور اُن سب لوگوں کو جو روز مرہ زندگی میں مختلف قومیتوں اور مذہب کے لوگوں سے ملتے ہیں اُنہیں خود کو دوسروں کے نظریے سے دیکھنے اور اُنکے سوالات کے تسلی بخش جوابات دینے کے لیے اپنا علم بڑھانے اور اپنی بات صحیح انداز سے سمجھانے کا ہنر سیکھنےکی اشد ضرورت ہے جس کے لیے پڑھنا، مستند لوگوں کی بات سننا اور علم والوں کی صحبت میں بیٹھنا بہُت ضروری ہے۔ آج تو عارفہ آپا نے بچا لیا تھا آگے بھی بس خیر رہے، ہم سوچتے ہوئے اپنی ڈیسک کو سدھارے، اب گھر جانے کا بھی انتظار تھا آخر آج کی مزیدار روداد اپنے” پہلے بوائے فرینڈ” کو بھی تو سنانی تھی۔😉😄
قرۃ العین صبا
#officekakhayal
#khayalbysaba