شادی سب کا پسندیدہ موضوع ہوتا ہے لوگ ہمیشہ ہی مختلف جگہوں پہ شادی کے کلچر کے بارے میں متجسس رہتے ہیں
آجکل کینیڈا میں شادیوں کا موسم ہے تو سوچا اس پہ ایک چھوٹی سی معلوماتی سیریز لکھی جاۓ۔
سمر یعنی گرمیوں کے دو مہینے یہاں شادیوں کا موسم ہوتا ہے، پاکستان میں یوں تو سارا سال ہی شادی کی تقریبات چلتی رہتی ہیں لیکن دسمبر کو بلخصوص شادی کا مہینہ مانا جاتا ہے وجہ اس کی دونوں جگہوں پہ ایک ہی ہے یعنی کہ خوشگوار موسم، اگرچے باقی مہینوں میں بھی کچھ نہ کچھ سلسلہ رہتا ہے اور شادیاں انڈور ہی ہوتی ہیں جہاں کا ماحول موسم سے بے نیاز ہوتا ہے لیکن سردیوں میں برف اور طوفان کے خدشات کے پیش نظر اور لوگوں کی چھٹیوں اور سفر کر کے آنے والوں کی سہولت کے پیشِ نظر یہاں سردیوں میں کم کم ہی شادی کے موقعے آتے ہیں۔
“کینیڈین”، “پاکستانی” اور “کینیڈین پاکستانی” شادیوں میں بہت فرق ہوتا ہے ، شروع شروع میں سن ۲۰۰۴ کی بات ہے، ایک دو دور پرے کی شادیوں میں شرکت کی تو کچھ پھیکا پھیکا سا لگا، بیس سال پہلے چیزیں کافی مختلف تھیں، اسمارٹ فون نہیں آۓ تھے اور مغرب کی بہت سی چیزیں مشرق اور مشرق کی مغرب تک نہیں پہنچیں تھیں۔
پاکستان کے شور شرابے اپنی جگہ تھے، ہر رسم ضروری اور بڑے پیمانے پہ کی جاتی تھی، لیکن وہاں بھی شادیوں میں ویسی چکا چوند، مہنگائی اور شو شا نہیں تھی جو اب نظر آتی ہے۔
جب ایک تہذیب کے لوگ کسی اور ملک جا کے آباد ہوتے ہیں تو اپنی کچھ رسوم کے ساتھ ساتھ بہت غیر محسوس طریقے سے دوسرے معاشرے کے طور طریقے اور رسم و رواج بھی اپنا لئے جاتے ہیں، یہی معاملہ کھانوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے، اب یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ایک بہت اوپری سی سوچ رکھنے والا طبقہ اسے اس بات سے بھی نتھی کرتا ہے کہ جو جس طرح کے طور طریقے اپناۓ گا انہی لوگوں کے ساتھ اٹھایا جاۓ گا حالانکہ اس کا سیاق و سباق بہت مختلف ہے اور اگر حقیقت پسندی سے دیکھیں تو گوروں میں جس قدر “بٹر چکن” اور “تندوری چکن” مقبول ہو چکی ہے اس اعتبار سے تو لگتا ہے کہ پاکستانیوں کی ہر صف میں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے تندوری چکن کے فین اور انڈین صفوں میں بٹر چکن کے شیدائ بدرجہ اتم موجود ہوں گے۔
ایک دن ہماری ایک کو ورکر جیکولین نے بتایا کہ میں نے تو بٹر چکن کا پیسٹ لا کے رکھ لیا ہے اور میں تو اسے ٹن پیک اور اسٹر فرائ ویجیٹیبل میں بھی انڈیل دیتی ہوں اینڈ ایوری ون لوز اٹ (توبہ! دیسی ذائقوں سے ایسا خطرناک کھلواڑ ہمارے ذہن میں بس اتنا ہی آیا ) لیکن اگر اپنا جائزہ لیں تو آج کینیڈا میں پاکستانی، انڈین آبادی والے علاقوں میں جگہ جگہ “تندوری چکن پزا”، “چکن تکہ پزا” حتیٰ کہ “ بیف بہاری پزا” اور “بٹر چکن پزا” بھی جگہ جگہ دستیاب ہے اسی طرح “چکن تکہ پاسٹا” اور “انڈین ہکاّ اسٹائل چائنیز“ بھی بے حد مقبول ہے تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ تہذیب اور ثقافت کا فیوژن یا ملاپ ہے اور مذہب کے ساتھ جوڑ کے اس کا تجزیہ کرنا ٹھیک نہیں۔
کینیڈین کلچر میں شادی کا مزاج سادہ ہے، ان کے ہاں شادی کی دعوت بہت اہتمام سے بھی ہو تو لوگ بہت محدود ہوتے ہیں، زیادہ تر قریبی فیملی اور دوست، ان کی تقریبات میں کل ملا کے پچاس سو لوگ بھی ہو جائیں تو بڑی بات ہے، شادی میں صرف بہت قریبی رشتہ دار اور دوستوں کو دعوت دی جاتی ہے، مشرق میں اتنے لوگ سالگرہ، عقیقہ، آمین اور عام دعوتوں میں ہی جمع ہو جاتے ہیں اور پاکستان میں آپ عام حالات میں کسی سے سالوں میں ملتے ہوں لیکن شادی کے وقت ضروری ہے کہ دور پرے کے ہر دوست اور رشتہ دار کو بلایا جائے۔
ایک بار اسی سلسلے میں اپنی کورئین اور فلپانئ کولیگز سے بات ہوئی تو ہماری شادی میں مہمانوں کی تعداد جان کے ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، ایک تو ان کی شادیوں کی تقریبات ایک ہی دن پہ محیط تھیں اور ان دونوں کی شادیوں میں تقریباً تیس تیس مہمان تھے، ان کے لیے شادی میں تین سو، پانچ سو سے آٹھ سو نو سو مہمانوں کا تصور ہی محال تھا، یہ تعداد سن کے دونوں کے ایک سے تاثرات تھے
Oh! Thats so expensive!
اس کے بعد مزید تقریبات اور رسومات یعنی مایوں، مہندی، مکلاوہ، چوتھی، بری، جہیز، پہناونیاں وغیرہ وغیرہ کا تو ذکر کرنے کی ہماری ہمت ہی نہیں ہوئی۔
ہم تیسری دینا کے ملکوں کے لوگ جتنے غریب ہیں ہماری رسمیں اور تقریبات ہمیشہ سے اتنی ہی شاہانہ رہی ہیں اور یہی عادات اور روایات ہم اپنے ساتھ یہاں بھی لے آۓ ہیں۔
ہمارے ایک عزیز کے بیٹے کی شادی کا وقت آیا تو جل کے کہنے لگے کہ ہمارے لوگوں نے یہاں آکے ان کی رسمیں بھی اپنا لییں اور اپنا بھی سارا گندھ لا کے شامل کر دیا (بیچارے کینیڈا میں دیسی شادی کی رسموں اور خرچوں کے ساتھ ساتھ “رنگ ایکسچینچ” “کیک کٹنگ” جیسی رسموں سے بھی پریشان تھے ) لیکن یہ خالصتاً آپ کی اپنی صوابدید پہ منحصر ہے کہ آپ کون سی رسموں کو اپنے گھر کی شادیوں کا حصہ بناتے ہیں۔
پاکستان میں بے انتہا مہنگائی کے باوجود بھی لیبر سستی ہونے کی وجہ سے شادی کا انتظام کینیڈا کی نسبت اب بھی سستا ہے، ہر طرح کی چھوٹی بڑی تقریب کا انتظام کرنا آسان ہے کچھ نہیں تو لوگ میدان یا گھر کے سامنے کی سڑک پہ ہی شامیانہ لگوا لیتے ہیں، سامان ڈیکوریشن سے آ جاتا ہے۔یہاں آپ ان سب چیزوں کا تصور نہیں کر سکتے، یا تو جو کچھ ہو گھر کے اندر ہو اور گھر بھی پاکستان کی نسبت چھوٹے ہی ہوتے ہیں، اگر بیک یارڈ بڑا بھی ہے تو موسم کا کوئی اعتبار نہیں پھر کچھ چیزوں کے لیے باقاعدہ اجازت یا پرمٹ درکار ہوتا ہے، ڈیکوریشن سے کچھ بھی کراۓ پہ لانا بہت مہنگا ہے،اس کے بعد محلے والوں کی بے آرامی کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے ، آپ ریسیڈینشل ایریا میں رات گئے شور شرابا نہیں کر سکتے گھر کے اندر چھوٹی سی تقریب ہے تو ویک اینڈ پہ دس گیارہ بجے تک نمٹا دی جاتی ہے اس لیے زیادہ مہمان ہوں تو آپ کو کوئی نہ کوئی کمیونٹی پارٹی روم، ریسٹورنٹ ہال یا بینکوئٹ ہال بک کروانا ہی پڑتا ہے۔
(باقی آئندہ)
*
تصویریں مختلف بینکوئٹ ہال میں منعقد کی گئی شادیوں کی ہیں
قرۃالعین صبآ