کونسی کتابیں پڑھیں

کتابوں کی اہمیت اور کونسی کتابیں پڑھیں اس سلسلے میں یو ٹیوب پہ وڈیو پوسٹ کی ہے، کچھ لوگوں نے موضوع دیکھ کے ہی کئی سوال بھیج دیے ، مطالعے کی عادت کیوں اور کیسے ڈالی جاۓ اس کے بارے میں وڈیو میں بات کی گئی ہے لیکن اس کے علاوہ ایک سوال کافی موصول ہوا کہ کونسی کتابیں پڑھیں؟، اگر کبھی کورس کی کتابوں کے علاوہ کسی کتاب تعلق نہیں رہا تو شروعات کہاں سے کریں؟
یہاں پہلے آہستہ آہستہ روانی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، آپ پہلے ہی دن کوئی ثقیل یا خالص ادبی کتاب اٹھا لیں گے تو نہ توجہ اور دلچسپی پیدا ہو سکے گی، نہ روانی اور نہ ہی مزا آۓ گا۔

کتاب دوستی بھی ایک سفر ہوتا ہے، یوں کہیے جیسے کم عمری میں بہت سی شاندار چیزوں کے زائقے ہمیں اچھے نہیں لگتے یا ہم محسوس نہیں کر سکتے اور پھر آہستہ آہستہ ہمارا ٹیسٹ ڈیولیپ ہوتا ہے اسی طرح درجہ بہ درجہ مطالعے کی عادت بھی بنتی ہے، رغبت بڑھتی ہے اور کتابوں کا ذوق بھی بنتا ہے، پھر آپ تحریروں کو
Between the lines
سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت سی متنازعہ کتابیں اور تحریریں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہوتی یا پھر وہ تنقید کی زد میں رہتی ہیں لیکن دراصل لوگ ان کو لکھے ہوئے الفاظ کے مطابق پڑھتے ہیں پسِ تحریر پیغام تک نہیں پہنچ پاتے۔

اپنی بات کریں تو ہماری نسل بچپن سے ہی اس معاملے میں خوش قسمت رہی ہے ، بچوں کے مشغلے محدود تھے اور کتابوں اور رسالوں کی فراوانی تھی جیسے نونہال، تعلیم و تربیت ، آنکھ مچولی وغیرہ جو کہ بہتر شروعات تھی یہاں سے شوق کا آغاز ہوا ، اس کے بعد بچوں کے ناول اور سلسلے تین ننھے سراغرساں سیریز ، امیر حمزہ ، عمرو یار ، ٹارزن، انسپکٹر جمشید سیریز اور بے شمار ناول بچوں کے لئے ادب تخلیق کرنے والے بہت سارے لکھنے والے تھے جن کی خدمات قابل تحسین ہیں، دسمبر میں ہونے والی بک فیئر میں ہم نے یہ ساری کتابیں دوبارہ دیکھیں تو بچپن تازہ ہو گیا, جب نئے سال کا کورس آتا تھا تو کہانیوں کی کشش میں ہم اردو کی کتاب پہلے ہی پڑھ لیتے تھے۔
اس کے بعد کچھ بڑے ہو کر افسانوں اور کہانیوں میں کشش نظر آئی، پاپولر فکشن یعنی ڈائجسٹوں وغیرہ پر جہاں کافی الزامات لگاے جاتے ہیں وہیں مطالعہ میں دلچسپی قائم رکھنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ ان میں بھی درجات تھے۔ ان کے علاوہ ابن صفی کی جاسوسی دنیا کی تخلیقات ناصرف دلچسپ لگیں بلکہ آسان زبان میں سیکھنے کو بہت کچھ ملا ۔
ادب پڑھنے کا باقاعدہ آغاز اخبار جہاں کے “کٹ پیس” اور ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے چھوٹے چھوٹے اقتباسات سے ہوا جن کے نیچے لکھا ہوتا تھا کہ فلاں مصنف کی فلاں کتاب سے ماخوذ، کالج کی لائبریری سے جو پہلی کتاب اٹھائ وہ شفیق الرحمن کی “شگوفے” تھی ، پھر ان کی ساری کتابیں گھر کی لائبریری کی زینت بن گئیں،اس کے بعد سفر ناموں کی باری آئ جس میں تارڑ صاحب سرِ فہرست تھے، پھر “ایک محبت سو افسانے” وغیرہ،انہی دنوں حمیدہ اختر حسین راۓ پوری کی انُکی یاداشتوں پہ مشتمل کتابیں “ہمسفر”، “نایاب ہیں ہم” اور “چہرے مہرے” شائع ہوئیں جو بہت آسان اور منفرد تھیں، پھر سلسلہ چل پڑا لیکن اب بھی کچھ کتابیں ہیں جنھیں پڑھنے کے لئے سمجھنا پڑتا ہے اور وقت لگتا ہے یا اب بھی ایپیٹایٹ نہیں بنی۔

اب کیونکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا موجود ہے تو اسے کسی رسالے یا میگزین کی طرح لیتے ہوۓ اچھا لکھنے والوں کو فالو کر کے آغاز کر سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ ایک ہی جیسی چیزیں نہ پڑھی جائیں، موضوعات کی جتنی کثرت ہوگی آپ کا وژن اتنا ہی بہتر ہوگا۔اسی طرح پرانے اور کلاسک لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ پاپولر فکشن، کہانیاں اور آج لکھی جانے والی کتابیں بھی پڑھیں تاکہ پڑھنے میں دلچسپی برقرار رہے اور سوچ بوڑھی نہ ہو۔

اس کے علاوہ ادیب آن لائن کی ایپ پہ ایک ذخیرہ موجود ہے، آپ بیتیوں کی زبان اکثر بہت آسان ہوتی ہے، سفر نامے بھی اسی لیے زیادہ پڑھے جاتے ہیں، ابن صفی کی جاسوسی دینا کے سارے ناول یہاں موجود ہیں، شاعری، کلاسک ادب، فکشن، متفرق مضامین، شخصی خاکے، تاریخ، مزاح، مذہب سب کچھ موجود ہے، اپنے مزاج کے مطابق جہاں سے آغاز کرنا چاہیں ضرور کریں۔
ہماری اپنی کتاب “موتیا کی خوشبو میپل کے رنگ” بھی ایک عام قاری کے لئے ہے، والدہ کی “جگ بیتی” کی بھی زبان بھی آسان ہے، پچھلے سال غزالہ خالد صاحبہ کی ان کہی شائع ہوئی جس میں متفرق ہلکے پھلکے مضامین ہیں، الغرض پڑھنے والے بنیے تو ایک دنیا ہے جو آپ پہ کھلنے کی منتظر ہے، تو آغاز کیجیے، انتظار کیسا!

کمنٹ میں اپنی پسند کی کتابوں کے نام ضرور لکھیں

پڑھیں لکھیں
خوش رہیں، خیال رکھیں!

قرۃالعین صباؔ

(Visited 1 times, 1 visits today)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *