محمد احمد صاحب کے نام سے کون واقف نہیں، اداکار تو وہ کمال کے ہیں ہی لیکن ان کے لکھے ہوۓ ڈراموں کا بھی جواب نہیں۔
ڈرامہ نگار کے طور پہ ہمارا ان سے پہلا تعارف جب ہوا ،جب اسکول کے دنوں میں ڈرامہ “تم سے کہنا تھا ” نشر ہوا ، علی حیدر ، مرینہ خان ، فرحان علی آغا اور ایک بہت ہی پیارے گھرانے کے گرد گھومتی کہانی نے ہمیں بہت متاثر کیا جس میں بزرگوں سے لے کر ٹین ایج بچے کے کرداروں تک پورے خاندان کا احاطہ کر کے بڑی مزے کی کہانی بنی گئی تھی ساتھ ہی ساتھ ایک اکیلی لڑکی کی زندگی ، ایک بری شادی سے نکلی طلاق یافتہ خاتون کی دوبارہ شادی ، ایک پر شفقت باس ، بچوں اور والدین کے تعلقات کے موضوعات کا خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا تھا ساتھ میں ہنزہ کی وادی کی فینٹیسی بھی تھی،
پھر عید پہ کوئ ڈرامہ آیا ، فراز بھائ نے کہا “ محمد احمد” بہت اچھا لکھتے ہیں ،اسوقت پہلی بار یہ ادراک ہوا کے اسکرین پہ نظر آنے والے مشہور اداکاروں کے پیچھے ایک ماسٹر مائنڈ ہوتا
ہے جسے رائیٹر کہا جاتا ہے ۔محمد احمد صاحب کے ڈراموں کا ایک بہترین پہلو یہ ہے کہ وہ رلتی، پٹتی عورتوں کی یا گھریلو سیاستوں کی کہانیاں نہیں لکھتے، وہ اصل مسائل اجاگر کرتے ہوے فیملی ڈرامہ لکھتے ہیں اور ان کے تخلیق کئے گئے کردار زندگی سے قریب ترین ہوتے ہیں خاص کر خواتین کے کردار وومن ایمپاورمنٹ کی مثال ہوتے ہیں اور خوبصورتی یہ کہ معاشرتی اقدار بھی سمبھالے رہتے ہیں ، حال ہی میں نشر ہونے والا ڈرامہ “کچھ ان کہی ” بھی اسکی ایک مثال ہے ہمیں موتیا کی خوشبو میپل کے رنگ ” کے سلسلے میں ان کا یہ خوبصورت مکتوب موصول ہوا تو اس حوصلہ افزائی پہ دل سے خوشی ہوئی، اسے کئی بار پڑھا اور اسے کتاب کے فلیپ کی زینت بنایا، آپ بھی پڑھیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمہ صبا صاحبہ۔ آداب
سب سے پہلے تو معذرت کا خواستگار ہوں۔ یہ ڈرامے بازی حقیقتا سر کھجانے کی فرصت نہیں دیتی۔۔ اللہ نے نہ لمبے ناخن دئے نہ بال ورنہ اللہ جانے کیا عالم ہوتا۔۔
آپ کی تحریر پڑھی۔۔ محسوس ہوا جیسے میں واپس ابو ظہبی پہنچ گیا ہوں ، چالیس سال قبل ، نئی نئی شادی ہوئی تھی بیگم کراچی میں اور میں پردیس میں۔۔۔ آپ کی تحریر نے پردیس میں بسنے والوں کی کیفیت کچھ ایسے بیان کی کہ گلا رندھ سا گیا۔۔واہ، کس خوبصورتی سے پردیس میں بسنے والوں کی کیفیت بیان کی ہے ، نیلی جھیلیں اور بریانی ۔۔یہ حقیقت ہے کہ پردیس کے ہر موڑ پہ لگتا ہے کہ بس اگلے نکڑ کی دائیں جانب طارق روڈ ہوگا۔۔
اماں بی ۔۔ان کا تخت ۔۔ان کی کتابیں سب کتنا شناسا لگا ، اماں کتنی اپنی سی لگیں یہ پڑھنے والے ہی بیان کرسکتے ہیں۔ مجھے یوں لگا جیسے میری ملاقات اپنی اماں بی سے ہوگئی ہو۔۔ خس کا عطر ۔۔ململ کا چنا ہوا دوپٹہ، سفید چکن کی قمیض اور سفید غرارہ ۔۔سب یاد آگیا۔۔
آپ کی تحریر میں نزاکت ہے، یادوں کی خوشبو ہے، رشتوں کی مہک ہے۔
آخری بات ، لکھتی رہئیے ، آپ کی وجہ سے یادیں اور اردو زندہ رہے گی۔ جیتی رہئیے ۔۔خوش رہئے۔
محمد احمد
(Visited 1 times, 1 visits today)