بہت عرصے بعد مسی ساگا سینٹرل لائبریری جانا ہوا تو ناسٹیلجیا نے بڑے زور سے ہٹ کیا، پھر یہ اندازہ ہوا کہ اب ناسٹیلجیا یا ہماری یادوں کی پوٹلی میں پرانی باتیں صرف پاکستان کی نہیں رہیں بلکہ اس میں اب پرانا کینیڈا بھی چھپا ہے۔
مسی ساگا ڈاون ٹاون کا علاقہ ہمارا کینیڈا میں پہلا گھر تھا، ڈاون ٹاون کو مرکز سمجھ لیجیے، لیکن بیس سال قبل ڈاون ٹاون صرف ٹورنٹو کا مانا جاتا تھا کیونکہ وہ ہی پرانا علاقہ تھا جیسے کراچی کا صدر، مسی ساگا ابھی آباد ہو رہا تھا اور اکثر علاقے سنسان سنسان سے محسوس ہوتے تھے، یہ نیا شہر تھا جہاں لوگ اپنے گھر بنا رہے تھے کیونکہ ٹورنٹو پرانا، مصروف اور مہنگاہو گیا تھا۔
سنٹرل لایبرئری ہمارے اپارٹمنٹ سے پانچ منٹ کی ڈرائیو پہ تھی، دونوں بڑے بچے جب چھوٹے تھے اور سارا دن بھگا بھگا کے تھکا دیتے تھے یا پھر چھٹی کے دن حسب معمول الصبح جگا دیتے تھے تو خاص طور پہ سردیوں میں ان کو مصروف رکھنے کی جو جگہ ہمیں سمجھ آتی وہ لائبریری ہی تھی یوں بھی یہاں کوئی نانی دادی کا گھر تو تھا نہیں کہ چھٹی منانے پہنچ جاؤ تو بس یہی ہماری جاۓ پناہ بچتی تھی۔
یوں تو لائبریری تقریباً ہر علاقے میں ہی موجود ہوتی ہے اور بچوں کے مختلف پروگرام بھی جاری رہتے ہیں لیکن تین منزلہ سنٹرل لائبریری کی بات اور تھی، کبھی بچوں کو کتابوں میں لگاتے، کبھی وہ بچوں کے ایریا میں بنے ٹرین ٹریک یا کھلونوں سے دل بہلاتے، کبھی بڑے بڑے پزل بنانے بیٹھ جاتے، ایک فش ایکوریم بھی بنا ہوا تھا وہ بھی دلچسپی کا باعث ہوتا، اسٹوری ٹائم کے پروگرام بھی چل رہے ہوتے، ایک بار ہم نے مل کر تھری ڈی پرنٹر کا ورک شاپ بھی اٹینڈ کیا ، دس بارہ سال پہلے تھری ڈی پرنٹر ایک عجوبہ تھا۔ لائبریری کے تھیٹر میں ویک اینڈ پہ بچوں کی مووی بھی لگا کرتی تھی۔
اس کے بعد سینٹرل لائیبریری کے ساتھ “سیلیبریشن اسکوائر” بھی بن گیا ۔ یہاں ہر ہفتے ہی کوئی نہ کوئی فیسٹیول ہونے لگا، پاکستان ڈے، کینیڈا ڈے، مسلم فیسٹ سارے میلے یہیں شروع ہو گئے اور ہر خاص موقع پہ رات کو آتش بازی بھی ضرور ہوتی ہے ، یہیں پاکستان سے آۓ ہوۓ سارے آرٹسٹوں کو بھی سنا اور ان کے کانسرٹ بھی اٹینڈ کیے خاص کر پہلی بار مرحوم جنید جمشید کو تائب ہو جانے کے بعدیہاں لائیو سننا بڑا خوشگوار تجربہ تھا۔
سیلیبریشن اسکوائر بننے سے بچوں کی عید ہی ہو گئی تھی گرمیوں میں کھیلنے کے لئے اتنی بڑی جگہ پھر ڈھیر سارے فوارے، ہم گھر سے چاۓ بنا کے لے جاتے، کبھی راستے سے سموسے بھی لے لیتے، بچے خوب پانی سے کھیلتے ہم چاۓ سے لطف اندوز ہوتے اور پھر گھر سدھارتے، گرمیوں میں یہاں ہر جمعرات کو کھلے ایریا میں مووی بھی لگتی تھی جس کا کیلینڈر پہلے سے آ جاتا تھا اور لوگ اپنے اپنے کمبل اور کرسیاں لے کر آ موجود ہوتے۔
مالی حالات کیسے بھی ہوں یہ تقریباً مفت اور بھرپور تفریح تھی اور آج بھی ویسی ہی ہے فرق صرف یہ ہے جب کوئی نیا نیا آتا ہے تو پاکستان کی یاد میں ہر دیسی میلہ اٹینڈ کرتا ہے، چہل پہل میں ہوم سکنس کے درد کا درماں ڈھونڈتا ہے اورفیسٹیول کے اسٹالز میں پاکستانی ذائقے محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسوقت یہاں اتنے ریسٹورنٹس نہیں تھے اس لئے بھی لوگ شوق سے آیا کرتے تھے اب مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لیے ٹورنٹو مسی ساگا کی دنیا ہی بدل چکی ہے، حلال چیزوں اور کھانے پینے کی بھرمار ہے پھر “رج وے پلازہ” نے تو سارے ریکارڈ ہی توڑ دیے ہیں، آدھی آدھی رات تک ہلا گلہ اور رونق میلہ چلتا ہی رہتا ہے( جو اچھا بھی لگتا ہے لیکن جس سے حقیقتاً اب اپنے اور مقامی لوگ بھی پریشان ہیں کہ یہاں بھی وہی ماحول بنتا جا رہا ہے جس سے گھبرا کے آۓ تھے) اور پھر جب آپ کا حلقہ بڑھ جاتا ہے تو خود بخود ایسے میلوں میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور دل بھی نہیں لگتا۔
بچے بڑے ہو گئے، ہم اپارٹمنٹ سے گھر میں شفٹ ہو گئے، وہ علاقہ چھوٹ گیا مصروفیات بڑھ گئیں، مسی ساگا ڈاون ٹاون کو ٹورنٹو کی طرح اونچی اونچی عمارتوں نے گھیر لیا، مسی ساگا میں رش بڑھ گیا، ہم ملٹن شفٹ ہو گئے اور ہمارا سیلیبریشن اسکوئر جانا ختم ہی ہو گیا۔پچھلے سال سنا کہ سینٹرل لائبرئری کو مکمل رینوویٹ کیا گیا ہے اور اس کا نام مسی ساگا کے میئر کے طور پہ چھتیس سال خدمات انجام دینے والی “ہیزل میکیلینل” کے نام پہ “ہیزل میکیلینل سینٹرل لائبریری” رکھ دیا گیا ہے۔
لائبریری واقعی نئی نکور ہو چکی تھی، اندر سب کچھ نیا نیا تھا اور یہاں بارہ پندرہ سال پرانا کوئی احساس باقی نہیں تھا۔
ہم نے فواروں کے آس پاس کرسی ڈالے بیٹھے لوگوں کو دیکھا جو خوش گپیوں میں مشغول تھے، کچھ لوگ سبز ٹرف پہ کرسی اور کمبل ڈالے بیٹھے تھے جمعرات تھا تو شاید اب بھی بڑی اسکرین پہ مووی لگتی ہوگی اسی کا انتظار ہوگا، کچھ بچے فٹ بال کھیل رہے تھے کچھ پکے فرش پہ سایئکل، اسکوٹی اور اسکیٹ بورڈ چلا رہے تھے، چھوٹے بچے خوب پانی اڑا کے شور و غل مچا رہے تھے، ماں باپ انھیں دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔
میلہ ابھی بھی جاری تھا بس لوگ بدل گئے تھے۔۔۔
قرۃالعین صباؔ
